ڈاکٹرمحمدافتخارشفیع ۔۔۔ الف د نسیم :عقیدۂ راسخہ کی غزل

الف  د نسیم :عقیدۂ راسخہ کی غزل

ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کی ارد وغزل محبت کے اس سرمدی رشتے سے منسلک ہے ، جس کے فروغ میں ولی دکنیؒ، سراج اورنگ آبادیؒ، اورمیرزامظہرؒ سے خواجہ میردردؒ تک کے شعرانے حصہ لیا۔امیرمینائیؒ،بیدم شاہ وارثیؒ،فانی بدایونیؒ،امجدحیدرآبادیؒ،آسی غازی پوریؒ اوراصغر گونڈویؒ سے سید وجیہ السیماعرفانیؒ اوربابا ذہین شاہ تاجیؒ تک کے شعرانے اس محبوبۂ دل براں صنف سخن میں حسن وعشق کے ازلی وابدی تصورات کو شاعرانہ اندازمیں بیان کیاگیا۔’’تصوف برائے شعرگفتن خوب است‘‘والی بات ہمارے شعراکی تصوف اور اس کے متعلقات کے ساتھ قلبی وابستگی کی غمازہے۔اپنے عہدکا رندمشرب شاعر مرزا غالب بھی خود کوولی سمجھتاہے ( ہائے !بادہ خواری )۔تصوف ایک طرزِزندگی ہی نہیں مقصدحیات بھی ہے۔یہ انسانی قلوب واذہان کی تطہیرکرکے اصل معنوں میں انسان کو جملہ رذائل سے پاک کرتاہے۔
ہماری غزل کے ان شعرانے جوکسی سلسلے کے تربیت یافتہ تھے،اذہان وقلوب میں موجود برے خیالات کے منہ زور گھوڑے کوحداعتدال پرلا کرشخصیت میں ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔دنیاوی جاہ وثروت ان کے لیے ثانوی   حیثیت رکھتی تھی۔سچ تو یہ ہے کہ انھی موضوعات نے برصغیرکی فضاؤں میں مشترکہ تہذیب کی بنیادرکھی تھی۔پروفیسرآل احمدسرور کے مطابق:
اردو شاعری میں تصوف کی روایت سب سے زیادہ وسیع اور گہری رہی ہے۔ اس نے اپنی اصطلاحی اور رمز و ایما کے پردے میں انسان دوستی، رواداری، خدمت خلق، وسیع المشربی، اخلاقی بلندی اور قلبی طہارت پر زور دیا ہے۔ (۱)
آج کاانسان شعرکی زبان سمجھنے سے قاصرہے،اسے قناعت،توکل اور استغناسے کوئی علاقہ نہیں۔کچھ صوفیانہ اشغال بھی اس بدگمانی کا سبب بن گئے۔ ڈاکٹر الف۔ د ۔ نسیم انجمن ترقی پسندمصنفین اور حلقہ ارباب ذوق کے عروج کے زمانے میں ادبی دنیامیں متعارف ہوئے۔پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے انسلاک کے باوجود انہوں نے شعوری طور پران دونوں تحریکوں سے الگ راستہ اختیار کیا۔لاہور میں قیام کے دوران میں انہوں نے الگ سے ایک بزم ادب سجائی اور اس کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاسوں اورمشاعروں کاآغازکیا۔اس عمل کے پیچھے ان کے لاشعور میں موجو د ان سماجی قدروں کے تحفظ کاجذبہ  شامل رہاہوگا جو صدیوں سے موجود ہیں،ہماری کلاسیکی غزل کی بنیادیں بھی اسی روایت پراستوارہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اپنی ذات میں گم ہوکرالگ سے راستہ بنانے کی کوشش عین فطری دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم بھی اسی سلسلے کے فرد فریدہیں۔ان کی غزل میں صوفیانہ رجحانات کی بھرپور ترجمانی ملتی ہے۔ایک اور چیزانھیں اس سلسلے کے شعراسے منفردبھی کرتی ہے جسے ہم اقبالؒ کی الوہی انا   کا اثر کہہ سکتے ہیں۔تصوف کی ایک لطیف روایت کے ساتھ ان کی شاعری میں اقبالؒ کی فکری حرکیات کی ایک طاقت ور لہربھی تیرتی دکھائی دیتی ہے۔یہ طریقت کاوہ راستہ ہے جو حضرت مجددالف ثانیؒ کے قول (ہرکہ مخالف شریعت است مردود است )کی فکری اتباع کرتاہے۔ یہ فکرخانقاہوں سے نکل کررسم شبیری ادا کرنے کی تلقین کرتی ہے۔انہوں نے جس دورمیں جوان ہوکربھرپور زندگی کاآغازکیا،اقوام عالم دوبڑی جنگوں میں لگے زخم چاٹ رہی تھیں۔صنعتی دور کے زیراثر پاک وہندمیں بھی عقل پرستی کاچلن عام تھا۔ الف ۔ د ۔ نسیم نے مذہب اور ادب سے وابستہ اقدار کادفاع اپنے ذمے لیا۔وہ صدیوں پرانی اس روایت کی حفاظت میں لگ گئے جواپنوں کے ہاتھوں پامال ہونے کے قریب تھی۔اس موقع پران کا جذباتی ہونا عین فطری ہے۔ڈاکٹرسعادت سعید نے ایک مضمون میں تفصیل کے ساتھ نسیم صاحب کے اس دور کی نفسیات کاجائزہ لیا ہے۔کہتے ہیں:ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم نے جس زمانے میں شعور کی آنکھ کھولی وہ متحدہ ہندوستان کی غلامی کا زمانہ تھا ۔فرنگی   سیاست زوروں پر تھی ۔مسلمان زوال آشنا تھے۔مادی اور تکنیکی ترقی نے روحانی شمعوں کو سرد کر رکھا تھا۔علت و معلول کی منطقی دست برد سے بچنا کار محال تھا۔دنیاوی عقل کے معاملات کوپذیرائی مل رہی تھی۔ایمان اور عشق کے حوالے اہمیت کھو چکے تھے۔آتش نمرود میں عشق کے کود جانے کے وقوعات کو پارینہ قصے گردانا   جا رہا تھا ۔تشکیکی  منطق زوروں پر تھی۔سرسید کے تتبع میں عقلیت پسندی کے راستے کو بنیادی اہمیت دی جا رہی تھی۔نئے سائنسی علوم کے رسیا اذہان ہر چیز کو تجربے کی کسوٹی پر پورا اتارنا چاہ رہے تھے۔ایسے میں اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ عقلی اور فکری دلائل اور سائنسی شعور کی روشنی میں ایمان اور عقائد کے سلاسل کی توجیہات کا رستہ اپنایا جائے۔ ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم نے نئے زمانے کے تناظر میں قدیم مذہبی عقائد کی تشریح و تعبیر کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ہرمینیوٹک کے جدید تصورات کے حوالے سے مذہبی متون اور شعری دانش کی عصری شرحوں سے سروکار رکھا(۲)
صوفیا کے نزدیک تصوف ایک کل ہے ،ادراس کے اہم اجزا میں قرب خداوندی ، فقروغنا،حسن وعشق،فناوبقا،تسلیم و رضا،انسان دوستی اورجبروقدروغیرہ شامل ہیں۔ڈاکٹرنسیم صاحب صوفیانہ محافل کے تربیت یافتہ تھے۔ کم وبیش اردو غزل کے یہی عناصرڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کے شعری تصورات کوتشکیل دیتے  ہیں۔ان کی شخصیت میں موجود سادگی،استغنا اور بے نیازی نے انھیں ایک خاص ماحول فراہم کیا،ان کی غزل کے چندشعرملاحظہ ہوں:

جلوۂ یار عیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
ہر  جگہ اُس کا نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

کعبہ و دیر میں بے کار کیا اُس کو تلاش
وہ مری روح و رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا

تمام عمر ملا پھر نہ اپنے گھر کا پتا
بتا گیا تھا کوئی مجھ کو اپنے در کا پتا

جہاں کہیں ہے کف پائے یار کی تصویر
وہاں سے لانا تو اے شیخ میرے سر کا پتا

شاعری انسانی متخیلہ کی معراج ہے،مذاہب وعقائدمیں عبادات سے متعلقہ اظہارکے زیادہ ترطریقے بھی شاعری  کی طرح جذبہ وخیال کے پابندہیں۔اظہار کی بلندترین سطح پر مذہب ،فلسفہ اور شاعری کامنتہائے مقصودایک ہوجاتاہے۔شعر کی بنیادی چیز اگرجذبہ ہے تومذہب کے پرستارکے ہاں اس کے خارجی اظہار کی ایک صورت بت تراشی بھی ہے۔اردو شاعری کاپس منظری ماحول مذہبی ہے،اس کا تلمیحاتی اورتشبیہاتی نظام خالص عربی اورایرانی فضامیں سانس لیتاہے۔ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم شاعری اورمذہب کے باہمی تعلق کے نہ صرف قائل ہیں بل کہ اسے دلائل وبراہین سے ثابت بھی کرتے ہیں۔اپنے ایک مضمون’’مذہب اورشاعری:چندتمہیدی مباحث میں کہتے ہیں:
مذہب اور اخلاقیات بھی آرٹ کی طرح واقعات اوراشیاکی ترجمانی ایسی طرز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہم میں بھی ایک ہیجانی اورجذباتی کیفیت پیدا تاکہ ہم ان کے مسلمات کے آگے بلاتامل سرتسلیم خم کریں۔مذہب  جس کامقصدایک مکررنظام کے تحت خدا یااپنے سے برتر کسی اورہستی کا ذہنی یاوجدانی ادراک ہے ،شاعری کی طرح یہ ایک حدتک جذبہ یاتخیل کامحتاج ہے۔ایک آدمی جب مذہب کے دیگر فرائض  حقوق سے الگ صرف خدا یااس کے کسی اورمظہر(جسے وہ خداسمجھتاہے)کی ذات وصفات کے ادراک کی کوشش کرتاہے تولازمی طورپر اسے اپنی قوت متخیلہ سے کام لینا پڑتاہے اورجب وہ اپنے خیال میںاس ہستی کاکوئی نہ کوئی نقش قائم کرلیتاہے تواس کے جذبات میں اتار چڑھاؤ پیداہوتاہے جس کااظہار وہ مناجات،دعااورعبادت کے ذریعے کرتاہے۔(۳)
اردوشاعری کے اس متصوفانہ مزاج کے مختلف سلاسل کے زیراثر  فرد،سماج اورادب خاص طورپراردو غزل پرگہرے اثرات مرتب ہوئے۔ہماری غزل میں وحدانیت،مشاہدہ،رواداری،عشق،معرفت،توحید،نظریہ ٔوحدۃ الوجود،سخاوت،دنیاکی بے ثباتی،صبرورضا،سیاحت،خرقہ پوشی، فقر، شریعت، طریقت، ریاضت، عبادت،ذکر،ہدایت،سماع اور انکسارجیسے موضوعات اسی کے تابع ہیں۔تصوف کی دنیامیں محبوب کی وسعت آفاق پہ چھائی ہوئی آنکھیں دراصل چشم دل واہونے کی علامت ہیں۔مست آنکھوں کا شراب خانہ طالب ومطلوب کے درمیان ایک الگ رشتہ قائم کرتاہے۔اس کی موجودگی میں کسی اور نشے کی ضرورت نہیں رہتی ۔چشمِ محبوب عقدہ کشاہے،بے قرار دلوں کے قرارکاباعث ہے:

می حاجت نیست مستیم را
در چشم تو تا خمار باقیست

ڈاکٹرنسیم صاحب کی غزل میں حسن وجمال کی علامات کا یہی دل پذیر عنصر موجودہے:

کس کافرنے کھول دیے ہیں مست آنکھوں کے مے خانے
ذرہ ذرہ جھوم اٹھا اور رقص میں آگئے دیوانے

جس کی یاد میں آنکھوں سے اک خون کادریا بہتاہے
ایک وہی بے درد ہمارے دل کاحال نہ پہچانے

دل سے اترکے پارجگرسے نکل گئی
تیغ نگاہ  ِیاربھی کیا چال چل گئی

ہوا تھا دل میں جو پہلے ہی وار میں پیوست
ملا نہ پھر کبھی اس ناوکِ  نظر کا پتا

پہلی نظرمیں ہم نے توسب کچھ لٹادیا
بے زار جیسے بیٹھے تھے پہلے ہی جی سے ہم

گلشن میں ترا طالبِ دیدار ہوا تھا
اس بات  پہ گل رہتاہے خاروں میں نظر بند

جو چاندتاروں میں ضوفگن ہے جوپھول کلیوں میں جلوہ گرہے
نگاہ مستی سے کوئی دیکھے توتیرا ہی ہے جمال ساقی

چشم ِدل حسن ِازل کا مشاہدہ کرتی ہے،یہ بصارتِ ازلیہ کی جانب اشارہ کرتی ہے،اگرخاص زاویے سے پڑے توچہرے پردائمی عشق کے نقش ونگاربنادے،جمال خداوندی تک رسائی دے۔یہ بات بھی غورطلب ہے کہ جس طرح ابرو کو آنکھ کی ہم راہی بالکل اسی طرح میسر ہے جیسے ذات حق اورقاب قوسین کا تعلق ہے۔ابر وؤں کا ایک اشارہ ہی حل المشکلات ہے:

یہ ہوش کس کو ہے مے کودیکھے حرام ہے یاحلال ساقی
تمہارے ابرو کا ہو اشارہ میں نہ پیوں کیا مجال ساقی

زلف،کاکل اور گیسو کی صوفیانہ اصطلاح بھی طالب ومطلوب کے درمیان ایک عجیب رشتے کی نشان دہی کرتی ہے۔یوں تویہ جدا جداہیں ۔بہ قول ابراہیم ذوق:

خط بڑھا، زلفیں بڑھیں،کاکل بڑھے، گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

زلف کی خوشبو محبوب تک رسائی کی علامت ہے،یہ اگرچہرے کوچھپالے توانقباض کی کیفیات جنم لیتی ہیں،جیسے چاندبادلوں کی اوٹ میں آجائے تو اندھیرا ہوجاتاہے۔چہرے اورزلف ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔

تیری زلفوں کی لٹک آج بھی ہے یادمجھے
منہ کے غنچے کی چٹک  آج بھی ہے یادمجھے

انجم کی ضو ، قمرکی ضیا ،مہرکی شعاع
نورِرخ ِسحرہے ،ذرا دیکھو توسہی

ہیں جلوۂ محبوب میں خورشید و قمر بند
زلفوں میں اگر شب ہے تو ہے رخ میں سحر بند

بزم  میں ساقی گلفام کی وہ تھا مژگاں
رزم میں نوک سناں تھا مجھے معلوم نہ تھا

ڈاکٹرصاحب کی شعری کائنات نعت شریف،غزل ،رباعیات اورمنقبت پرمشتمل ہے،انہوں نے دنیاوی فائدے کے لیے کبھی کسی صاحب ثروت وجاہ کا قصیدہ نہیں لکھا،ان کے فکری و روحانی مرشد خواجہ میردرد ؒ کہتے ہیں ’’فقیر کے اشعار باوجود رتبہ شاعری اور نتیجہ شاعری کے نتائج نہیں ہیں۔ فقیر نے کبھی شعرآورد سے موزوں نہیں کیا اور نہ کبھی اس میں مستغرق ہوا۔کبھی کسی کی مدح نہیں کی نہ ہجو لکھی اور فرمائش  سے شعر نہیں کہا‘‘(۴)۔عملی طور پر نسیم مرحوم کے قلم نے بھی یاتوبابرکت ہستیوں کی مدحت لکھی یا قوم کوعلم وعمل کے راستے پرلانے کی سچی  جستجو کی۔انہوں نے اپنے اشعارمیں قوم کو خودآگاہی اور ذات کے عرفان کی راہ پرچلنے کی تلقین کی۔ انہوں نے خودبھی بامقصد زندگی گزاری اور دوسرں کوبھی اس پرآمادہ کیا۔وہ تصوف کے اس راستے کے سالک تھے جس میں دنیاکے سارے معاملات رنگ نبوی ﷺمیں روپذیرہوتے ہیں:

ہرشے میں جب صفات ِخدا   کا ظہورہے
ہر  شے خدا نما نہ کہوں تو میں کیاکہوں

ہر سو وہ جلوہ گرہے ذرادیکھو توسہی
وہ دعوت نظرہے ذرادیکھو توسہی

کہتے ہیں شاہ رگ سے بھی ہے وہ قریب   تر
نزدیک کس قدر ہے ذرادیکھو توسہی

میری وفانے عمربھر ان کادیاہے ساتھ
ان کی وفاتوساتھ مرے پل کے پل گئی

رندوں نے لے لیا اسے نوک زبان پر
ساقی کے ہاتھ سے جو صراحی پھسل گئی

اس نقش پائے ناز پہ رکھاہے جب سے سر
کیفیت ِسجودکی صورت بدل گئی

کہیں ناقوس کے سینے میں تھا فریاد کُناں 
کہیں آواز اذاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

تھا کہیں سلسلہ کوہ و جبل میں ساکت
کہیں دریائے رواں تھا مجھے معلوم نہ تھا

خندۂ گل تھا کہیں اور کہیں موجِ نسیم
کہیں بلبل کی فغاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

مسائل تصوف میں بت خانہ،مے کدہ،دیروحرم، شراب،پیرمغاں،ساقی،زنار،ساغر،صراحی اور پیمانہ وٖٖغیرہ مختلف مقامات ہیں۔دل بر،یار،صنم،دوست اور محبوب وغیرہ معبودحقیقی کی تجلی صفاتی ہے۔ڈاکٹرصاحب اس روایت کے خوب شناساتھے۔انہوں نے صوفیانہ مصطلحات پرایک شان دار کتاب بھی لکھی ہے۔صابری نورمصطفی کے خیال میں:
ان (نسیم صاحب)کی غزل کاامتیازی وصف یہ بھی ہے کہ ہمیں فکراوراحساس کی ہم آہنگی کارجحان ملتاہے۔ان کے احساسات میں ایسی شدت یاطغیانی کاتاثرنہیں ملتاکہ فکرکودبادے اورفکری سطح اوجھل کردے اورنہ ہی فکروخیال اتنے مجرد ہوتے ہیں کہ احساس کاتاثرہی ختم ہوجائے ۔فکراوراحساس کا اس حسین امتزاج نے انھیں منفرد غزل گو کی صف میں شامل کردیا۔ایساطرز عمل ہمیں بہت کم شاعروں کے ہاں ملتاہے۔جہاں فکراوراحساسات کی ہم آہنگی مل کرغزل کی دل کشی ،لطافت ،رنگینی اور پرکیف مناظرمیں اضافہ کردے۔(۵)
ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کے ہاں اسی نوع کی غزلیں ملتی ہیں جن میں ایک خاص قسم کی فضاہے،چندنمونے یہ ہیں:

ہے آمدِ فصلِ گل و لالہ کی بہت دھوم
ظالم مجھے اب کے تو نہ زنجیر میں کر بند

کچھ لطفِ چمن ہم کو بھی لے لینے دے صیّاد
اڑتے ہی نہ کر طاقتِ پرواز کو پر بند

شاید  ہے بہاراں میں مے ناب کی تاثیر
غنچوں نے جو مستی میں دیے کھول کمر بند

اے موجِ نسیم سحری، مردہ زمیں سے
شاخوں پہ نکل آئے ہیں کتنوں کے جگر بند

جو پہنچے گرد کو اس کی خرد کی کیا ہے مجال
مقام عشق ہے بیروں زِ حدِّ وہم و خیال

وجود بحر پہ موقوف ہے حباب کی زیست
جو تو نہیں تو مری زندگی، عدم کی مثال

مقامِ سدرہ و طوبیٰ جہانِ ذات و صفات
ہے سارا عشق کا حاصل، ہے سب اسی کا مآل

کمالِ آدمِ خاکی ہے ذات کا دیدار
مگر نصیب نہیں جز بہ ذوق و مستی و حال

نقوشِ دہر میں بھرتی ہے رنگ ہر  لمحہ
مری نگاہِ تماشا برنگِ ذوقِ جمال

خدا سے مانگ، دلِ زندہ، دیدۂ بینا
حذر زِ دانش حاضر کہ ہے خودی کا زوال

درونِ میکدہ اُس کا گذر نہیں لیکن
نسیم راہ نشیں بھی ہے کوئی صاحبِ حال

جوابِ خط کی تمنا رہی ہے اب کس کو
کوئی بتائے مجھے میرے نامہ بر کا پتا

خزاں کا دور بھی کتنا مقام عبرت ہے
نہ عندلیب کا ہے اور نہ برگ تر کا پتا

ہوا تھا فصلِ بہاری میں جو اسیرِ قفس
نسیمؔ، لا تو کبھی اس شکستہ پر کا پتا

ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کے ہاں اہم شعراکے لب ولہجے کی صدائے بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔انہوں نے خواجہ میردرد،میرزا اسداللہ خاں غالب اورعلامہ محمداقبال کی غزل کے رموزوعلائم کے اچھے خاصے اثرات قبول کیے ہیں۔ان کے شعروں کی لفاظی اور پیش کش بہ ذات خود اس کااعتراف کرتی ہے۔ان کی غزل میں اقبال کے فکروتفلسف کی گہری جھلک دکھائی دیتی ہے۔چندمثالیں دیکھیے:

حقیقت جذب ومستی کیاہے؟یہ اہل ہوش وخردنہ جانیں
بساط عالم الٹ کے رکھ دے،جو رندہوباکمال ساقی

مقام سدرہ و طوبیٰ جہاں ذات وصفات
ہے سارا عشق کاحاصل ہے سب اسی کامآل

کاروان عشق میں اب ایک بھی مجنوں نہیں
اورلیلیٰ بھی ہوس کے جام سے مدہوش ہے

میری زندگی کاحاصل میرا فقرکج کلاہی
نہ پسندآیا مجھ کوکبھی تاج وتخت شاہی

کہیں لامکاں سے آگے ہے نظرمرے جنوں کی
ہے غبار راہ منزل یہ جہان مرغ وماہی

کسی مردسے سبق پڑھ من عرف نفسہ کا
توہی کھیت تو ہی پانی توہی فصل توہی دانہ

جوزمیں مسجد تھی اب تہذیب کا میخانہ ہے
مشرق ومغرب میں ہر  جا شور ناؤنوش ہے

علامہ اقبال کی طرح ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کے ہاں بھی عشق ایک متحرک قوت ہے جوکہیں روح الامین کا ہم راز ہے، کہیں  اس کی پروازطائرسدرہ سے بھی بلندہے،عشق کے جملہ تصورات عام طورپرعلامہ اقبال سے ماخوذ ہیں،ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کی غزل میں اردو کی صوفیانہ روایت کی پیروی کے ساتھ ساتھ اقبا ل کا تصورعشق بھی نمایاں ہے:

عشق ہے مطربِ ازل کا ساز
عشق روح الامین کا ہمراز

سدرۃ المنتہیٰ سے بھی ہے پرے
بے خبر مرغ ِعشق کی پرواز

عشق سے آدمی کی خاک میں نور
عشق سے سنگ، سنگ کوہ طور

ماہ وانجم میں بھی ہے ظہور اس کا
ذرے ذرے سے عشق ہے مستور

خانۂ عشق قلب انسانی
منبع عشق ذات نورانی
بازی عشق جنگ بدر و حنین
شوکت عشق فقر سلمانی

ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کی غزل اردوکی کلاسیکی فضامیں آنکھ کھولتی ہے۔یہ شاعری روایت کاتسلسل ہے،یہ ایک عارف کے مجذوبانہ مضامین ہیں،ایک صوفی کے افکاروتصورات ہیں ،یہی اس غزل کی اہمیت ہے۔
حوالہ جات
۱۔آل احمدسرور،’’اردوشاعری میں تصوف کی روایت‘‘،مشمولہ’مقالات تنقید وتحقیق‘‘،علی گڑھ،ادارۂ تالیفات اردو،۱۹۵۶ء،ص۱۵۴
۲۔سعادت سعید،ڈاکٹر،دیباچہ ،’’ارکان اسلام:فکراقبال کی روشنی میں‘‘،ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم،ص۶
۳۔ الف ۔ د ۔ نسیم،ڈاکٹر،’’مذہب اورشاعری‘‘،مشمولہ’’نئی شاعری‘‘،شمارہ :اول ،اگست۲۰۱۶ء۔مدیرڈاکٹرسعادت سعید،لاہور،ص۳۴
عبداللہ قریشی،محمد،’’علم الکتاب:ایک مطالعہ‘‘ماہ نامہ’’صریر‘‘،شمارہ ۱،سالنامہ،۱۹۹۳ء۔مدیرڈاکٹرفہیم اعظمی،کراچی
۵۔صابری نورمصطفی،’ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کی علمی وتحقیقی خدمات:مشرقی اقدار کی روشنی میں‘‘،غیرمطبوعہ تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی،مخزونہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، ۲۰۱۰ء،ص ۲۴۴

Related posts

Leave a Comment