افتخار شاہد ۔۔۔ درد کچھ اور بڑھا آپ کے آ جانے سے

درد کچھ اور بڑھا آپ کے آ جانے سے
ہم کو رخصت نہ ملی اب بھی شفاخانے سے

ایک مدت مَیں ترے لمس کی شدت میں رہا
چھو گیا ہاتھ ترے ہاتھ کے دستانے سے

اس نے بھی طرزِ تکلم کو سنبھالے رکھا
میں بھی ڈرتا ہی رہا بات کے بڑھ جانے سے

ورنہ میں ہاتھ پہ کرنے ہی لگا تھا بوسہ
خواب ٹوٹا ہے مگر آپ کے گھبرانے سے

ٹھوکریں کھا کے بھی پلٹیں تو غنیمت جانو
کون سمجھا ہے یہاں بات کے سمجھانے سے

ہم کو حاجت ہی نہیں جام و سبو کی ورنہ
روز آتا ہے بلاوا کسی مے خانے سے

پہلے کچھ روز تو حیرت سے مجھے دیکھتے تھے
اب تو مانوس ہیں رستے ترے دیوانے سے

Related posts

Leave a Comment