عنبرین خان ۔۔۔ کہاں کسی کی محبت بھی ڈھونڈتی مجھ کو

کہاں کسی کی محبت بھی ڈھونڈتی مجھ کو
شناخت اپنی بھی جیسے نہیں رہی مجھ کو

کہیں پہنچنا تھا اس شام لازمی اس نے
گھڑی دکھاتا رہا تھا ، گھڑی گھڑی مجھ کو

پھسلتا جاتا تھا وہ ہاتھ میرے شانوں سے
قریب کر کے سکھاتا تھا شاعری مجھ کو

کلائی اس نے دبائی ہوئی تھی ہاتھوں میں
ضروری پیار کی لگتی تھی ، ہتھ کڑی مجھ کو

نظر میں اس کی ذرا دیر دیکھتی رہی میں
ہر ایک سمت نظر آئی روشنی مجھ کو

یقیں کریں کہ وہ اک علم کا سمندر تھا
پسند اس کی زیادہ تھی عاجزی مجھ کو

پھر ایک روز کسی سمت چل دیا چپ چاپ
پھر ایک راز لگی تھی یہ زندگی مجھ کو

وہ گفتگو بھی بڑی باکمال تھی لیکن
زیادہ جلدی سمجھ آئی ان کہی مجھ کو

مجھے تو جھوٹ بھی سچ عنبرین لگتا تھا
کچھ اس طرح سے سناتا تھا راگنی مجھ کو

Related posts

Leave a Comment