عنبرین خان ۔۔۔ میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی

میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی ان سے پڑھ لیتی ہوں سب شوق کی رمزیں اس کی گل کروں کیسے یہ جلتی ہوئی شمعیں اس کی میری یادوں سے بندھی ہیں سبھی شامیں اس کی صورتِ صبحِ بہاراں ہے سراپا اس کا موجِ خوشبو کی طرح ہیں سبھی باتیں اس کی ضبط جتنا بھی کروں حوصلہ جتنا بھی رکھوں بعض اوقات رُلا دیتی ہیں یادیں اس کی میری کھڑکی سے چلی آتی ہیں خاموشی سے صبح کے نور سے پہلے ہی وہ کرنیں اس کی جس کی تابانی…

Read More

عنبرین خان ۔۔۔ کہاں کسی کی محبت بھی ڈھونڈتی مجھ کو

کہاں کسی کی محبت بھی ڈھونڈتی مجھ کو شناخت اپنی بھی جیسے نہیں رہی مجھ کو کہیں پہنچنا تھا اس شام لازمی اس نے گھڑی دکھاتا رہا تھا ، گھڑی گھڑی مجھ کو پھسلتا جاتا تھا وہ ہاتھ میرے شانوں سے قریب کر کے سکھاتا تھا شاعری مجھ کو کلائی اس نے دبائی ہوئی تھی ہاتھوں میں ضروری پیار کی لگتی تھی ، ہتھ کڑی مجھ کو نظر میں اس کی ذرا دیر دیکھتی رہی میں ہر ایک سمت نظر آئی روشنی مجھ کو یقیں کریں کہ وہ اک علم…

Read More