آسناتھ کنول ۔۔۔ ٹوٹتے رہنے کے آزار میں آ جاتے ہیں

ٹوٹتے رہنے کے آزار میں آ جاتے ہیں
کتنے بھولے ہیں ترے پیار میں آ جاتے ہیں

ماضی و حال کے سب زخم بھلاتے ہوئے ہم
دیکھ لیں تجھ کو تو سنسار میں آ جاتے ہیں

سوچتے رہنے سے جنت نہیں ملنے والی
ہم ترے حلقہ آثار میں آ جاتے ہیں

اپنے ہی دھیان  میں ڈوبے ہوئے منزل کی طرف
کیوں سمند ر میری رفتار میں آ جاتے ہیں

ہم ہوائوں کی طرح خانہ بجاں پھرتے ہیں
کسی در میں کسی دیوار میں آ جاتے ہیں

یہ ستم کم تو نہیں خواب فروشوں کے لیے
لے کے تعبیر کو دربار میں آ جاتے ہیں

Related posts

Leave a Comment