آسناتھ کنول ۔۔۔ اے ہنر آشنا! ہنر خاموش!

اے ہنر آشنا! ہنر خاموش!
کیوں ترے ضبط کا ہے در خاموش

جب بلائیں زمین پر اُتریں
کیوں رہا سب کا سب نگر خاموش

نطق و لب پر بھی نیند طاری ہے
اور تری آنکھ کا سحر خاموش

نوچتی پھر رہی ہے ذہنوں کو
چیختی کاٹتی نظر خاموش

چپ ہیں صحرا بھی اور دریا بھی
موج در موج ہے ڈگر خاموش

وہ ہمالہ کا ایک جنگل تھا
اور جنگل بھی اس قدر خاموش

کیسے چُپ چاپ دونوں کاٹ گئے
زندگی کا حسیں سفر خاموش

آس کا اک دیا جلا تو سہی
کیوں رہے درد کا یہ ڈر خاموش

Related posts

Leave a Comment