آسناتھ کنول ۔۔۔ اے ہنر آشنا! ہنر خاموش!

اے ہنر آشنا! ہنر خاموش! کیوں ترے ضبط کا ہے در خاموش جب بلائیں زمین پر اُتریں کیوں رہا سب کا سب نگر خاموش نطق و لب پر بھی نیند طاری ہے اور تری آنکھ کا سحر خاموش نوچتی پھر رہی ہے ذہنوں کو چیختی کاٹتی نظر خاموش چپ ہیں صحرا بھی اور دریا بھی موج در موج ہے ڈگر خاموش وہ ہمالہ کا ایک جنگل تھا اور جنگل بھی اس قدر خاموش کیسے چُپ چاپ دونوں کاٹ گئے زندگی کا حسیں سفر خاموش آس کا اک دیا جلا تو…

Read More

آسناتھ کنول ۔۔۔ ٹوٹتے رہنے کے آزار میں آ جاتے ہیں

ٹوٹتے رہنے کے آزار میں آ جاتے ہیں کتنے بھولے ہیں ترے پیار میں آ جاتے ہیں ماضی و حال کے سب زخم بھلاتے ہوئے ہم دیکھ لیں تجھ کو تو سنسار میں آ جاتے ہیں سوچتے رہنے سے جنت نہیں ملنے والی ہم ترے حلقہ آثار میں آ جاتے ہیں اپنے ہی دھیان  میں ڈوبے ہوئے منزل کی طرف کیوں سمند ر میری رفتار میں آ جاتے ہیں ہم ہوائوں کی طرح خانہ بجاں پھرتے ہیں کسی در میں کسی دیوار میں آ جاتے ہیں یہ ستم کم تو…

Read More

آسناتھ کنول … تیرے لہجے کی تب و تاب میں گُم رہتے ہیں

تیرے لہجے کی تب و تاب میں گُم رہتے ہیںہم تمنائوں کے گرداب میں گُم رہتے ہیں وہ سلیقہ ہے تیری حاشیہ آرائی میںتیرے الفاظ کے اعراب میں گُم رہتے ہیں کیا بتائیں کہ ابھی شغل ہے کیا شوق ہے کیاہم تو حالات کے سیماب میں گُم رہتے ہیں ایک احساس نے بھڑکائی تھی لو آنکھوں کیاب تو جذبات کے سیلاب میں گُم رہتے ہیں ایک نادیدہ سی مسکان لیے ہونٹوں پرتیری پیشانی کی محراب میں گُم رہتے ہیں ہم فقیروں سے محبت کی دُعا لے جائودل کی ٹوٹی ہوئی…

Read More