سہیل یار ۔۔۔ اِس دور میں بھی عشق کرے گا مرے گا کیا

اِس دور میں بھی عشق کرے گا مرے گا کیا
تُو نوکری اگر نہ کرے گا کرے گا کیا

انجام دوسروں کا یہاں دیکھتا ہوں جب
میں سوچتا ہوں عشق میں میرا بنے گا کیا

تھوڑا بہت دماغ سے لینا پڑے گا کام
دل ہی تمام فیصلے کرتا رہے گا کیا

اُس کے بغیر بھی تو کوئی زندگی نہیں
اُس کے بغیر عمر بھر اب تُو جیے گا کیا

گر شاعری سے بادہ و مینا نکال دیں
اس میں نصیحتوں کے علاوہ بچے گا کیا

جس گلشنِ سخن کے ہوں گلچیں ہی بے ہنر
اُس میں کمالِ فن کا کوئی گُل کھِلے گا کیا

چھائے ہوئے ہیں چرخِ ادب پر فقط گروہ
تنہا جو لڑ رہا ہے فلک پر چڑھے گا کیا

جینے کا آسرا ہے نہ پینے کا سلسلہ
سگریٹ نہیں پیے گا تو کوئی پیے گا کیا

اِس عمر میں بھی پیار کی کرتا ہے یارؔ بات
اِس عمر میں بھی حسرتِ دل سے جلے گا کیا

Related posts

Leave a Comment