سہیل یار ۔۔۔ انا  سے ہٹ کے اگر ذات ہو بھی سکتی ہے

انا  سے ہٹ کے اگر ذات ہو بھی سکتی ہے جہاں میں پیار کی پھر بات ہوبھی سکتی ہے کچھ اس لیے بھی سر شام  پھرتا رہتا ہوں کہیں تو اس سے ملاقات ہو بھی سکتی ہے وہ کاکلوں کی گھنی چھاؤں میں بٹھا لے تو عجب نہیں کہ وہیں رات ہو بھی سکتی ہے اگر وہ چاند گھٹاؤں سے باہر آجائے تو مجھ پہ نور کی برسات ہو بھی سکتی ہے اگر وہ مجھ کو بھی انسان مان لے تو یہاں بلند کچھ مری اوقات ہو بھی سکتی ہے…

Read More

سہیل یار ۔۔۔ اُس کو ابد تلک یہ میسر ہے زندگی

اُس کو ابد تلک یہ میسر ہے زندگی جس کو خبر ہے دہر میں کیونکر ہے زندگی جیسے بھی چاہے دیکھ لو اس کو پرکھ کے تم سب موتیوں سے قیمتی گوہر ہے زندگی خوش فہم موج موج ہے، ظن ہے بھنور بھنور وہم و گماں کا ایک سمندر ہے زندگی مئے خانۂ حیات میں رہتے ہو اور تم اتنا نہ جان پائے کہ ساغر ہے زندگی بے جان کوئی چیز نہیں کائنات میں ذرّہ، کپاس، آئنہ، پتھر ہے زندگی آخر یہ زندگی ہے، المناک ہو تو کیا اک موت…

Read More

سہیل یار ۔۔۔ یارو چلو یہ مانا اُس سا ایک نہیں

یارو چلو یہ مانا اُس سا ایک نہیںلیکن پھر کیوں عالم سارا ایک نہیں ہنس کر دیوارِ گریہ سے پوچھوں گاتیرے اِتنے گھر ہیں، میرا ایک نہیں ایک خدا کا مطلب وحدتِ عالم ہےعالم میں وحدت سے اچھا ایک نہیں وہ کہتے ہیں فرق ہے ہم میں اور اُن میںمیں نے پوچھا رنگ لہو کا ایک نہیں؟ وہ کہتے ہیں یہ تقسیم ضروری تھیمیں بولا کیا باپ ہمارا ایک نہیں؟ وہ کہتے ہیں، فرق ہے اُس کے بندوں میںمیں نے کہا، اللہ کا کنبہ ایک نہیں؟ میں کہتا ہوں یار…

Read More

سہیل یار ۔۔۔ اِس دور میں بھی عشق کرے گا مرے گا کیا

اِس دور میں بھی عشق کرے گا مرے گا کیا تُو نوکری اگر نہ کرے گا کرے گا کیا انجام دوسروں کا یہاں دیکھتا ہوں جب میں سوچتا ہوں عشق میں میرا بنے گا کیا تھوڑا بہت دماغ سے لینا پڑے گا کام دل ہی تمام فیصلے کرتا رہے گا کیا اُس کے بغیر بھی تو کوئی زندگی نہیں اُس کے بغیر عمر بھر اب تُو جیے گا کیا گر شاعری سے بادہ و مینا نکال دیں اس میں نصیحتوں کے علاوہ بچے گا کیا جس گلشنِ سخن کے ہوں…

Read More