سہیل یار ۔۔۔ انا  سے ہٹ کے اگر ذات ہو بھی سکتی ہے

انا  سے ہٹ کے اگر ذات ہو بھی سکتی ہے
جہاں میں پیار کی پھر بات ہوبھی سکتی ہے

کچھ اس لیے بھی سر شام  پھرتا رہتا ہوں
کہیں تو اس سے ملاقات ہو بھی سکتی ہے

وہ کاکلوں کی گھنی چھاؤں میں بٹھا لے تو
عجب نہیں کہ وہیں رات ہو بھی سکتی ہے

اگر وہ چاند گھٹاؤں سے باہر آجائے
تو مجھ پہ نور کی برسات ہو بھی سکتی ہے

اگر وہ مجھ کو بھی انسان مان لے تو یہاں
بلند کچھ مری اوقات ہو بھی سکتی ہے

یہ کائنات مجھے چھوڑ سکتی ہے تنہا
یہ کائنات مرے ساتھ ہو بھی سکتی ہے

بساطِ عشق میں ممکن ہے جیت جاؤں یار
اور اس ڈگر پہ مجھے مات ہو بھی سکتی ہے

Related posts

Leave a Comment