سہیل یار ۔۔۔ اُس کو ابد تلک یہ میسر ہے زندگی

اُس کو ابد تلک یہ میسر ہے زندگی
جس کو خبر ہے دہر میں کیونکر ہے زندگی

جیسے بھی چاہے دیکھ لو اس کو پرکھ کے تم
سب موتیوں سے قیمتی گوہر ہے زندگی

خوش فہم موج موج ہے، ظن ہے بھنور بھنور
وہم و گماں کا ایک سمندر ہے زندگی

مئے خانۂ حیات میں رہتے ہو اور تم
اتنا نہ جان پائے کہ ساغر ہے زندگی

بے جان کوئی چیز نہیں کائنات میں
ذرّہ، کپاس، آئنہ، پتھر ہے زندگی

آخر یہ زندگی ہے، المناک ہو تو کیا
اک موت سے تو پھر بھی یہ بہتر ہے زندگی

اب تک تو تم نے دیکھ لی جو دیکھ لی مگر
اک بار پھر سے دیکھو حسیں تر ہے زندگی

آساں نہیں دنوں میں بدل دینا زیست کو
صدیوں سے اک مزاج کا مظہر ہے زندگی

وہ تیرگی میں ڈھونڈ ہی لیتی ہے راستہ
مہتاب کی طرح جو منور ہے زندگی

کیوں یارؔ یہ نگاہِ تغافل کا ہے شکار
ہر ایک شے کا مرکز و محور ہے زندگی

Related posts

Leave a Comment