نوید صادق ۔۔۔ ہجومِ یاس تھا ، بے داریاں تھیں اور مَیں تھا

ہجومِ یاس تھا ، بے داریاں تھیں اور مَیں تھا
کوئی گذشتہ کی چنگاریاں تھیں اور مَیں تھا

سفر تھا اور سفر بھی عجیب دشت کا تھا
قدم قدم نئی دُشواریاں تھیں اور مَیں تھا

یہ اور بات ، کسی سے بھی کچھ نہ کہہ پایا
عجیب رنگ کی سرشاریاں تھیں اور مَیں تھا

مجھے بھی ٹھیک سے اب یاد تو نہیں ، ویسے
بس اک جدائی کی تیاریاں تھیں اور مَیں تھا

چلا تو خود سے ذرا ہٹ کے ہی چلا مَیں بھی
کہ شہر بھر کی نگہداریاں تھیں اور مَیں تھا

نوید! خیر سے خاموش ہو ، کہو کچھ تو
ہزار رنج تھے ، بیماریاں تھیں اور مَیں تھا

Related posts

Leave a Comment