نگاہ کن کہ فضائے دروں کبیدہ ہے
کمال لطف حضور آپ کا شنیدہ ہے
حضور ظرف بھی مل جائے بھیک کے شایاں
حضور دامن اوقات ما دریدہ ہے
ہوا لذائذ عالم سے وہ تو مستغنی
حضور آپ کے غم کا جو دل چنیدہ ہے
کہاں اٹھاتے ہیں سر ، اہل سر جو ہیں ان کے
غرور عشق گدایان در خمیدہ ہے
زباں سے کہنا ضروری نہیں عدیم یہاں
ہر ایک اشک مرے کیف کا جریدہ ہے