شہزاد احمد شیخ ۔۔۔ جیتے جی اعلان میری موت کا ہوتا ر ہا

جیتے جی اعلان میری موت کا ہوتا ر ہا
اِک ہجومِ دوستاں میرے لیے روتا رہا

بارہا شہزاد ؔ میرے ساتھ یہ ہوتا رہا
جاگنا تھا جِس گھڑی ، میں اُس گھڑی سوتا رہا

پہلے تو جتنے گلے تھے سارے اُس نے کر دئیے
پھر مِرے سینے سے لگ کر رات بھر روتا رہا

ہائے کیسا راستہ اب کے کیا تھا اِختیار
کارواں لُٹتا رہا ، اور رہنما سوتا رہا

مجھ سے تنہائی میں اکثر بات کرنے کے لیے
میرے کمرے میں مِرا اِک پالتو توتا رہا

دوستوں کے گل کھلے ہیں چار سو میرے لیے
عمر ساری اُلفتوں کے بیج میں بوتا رہا

آنکھ کی نہروں میں پانی کھول کر شہزادؔ میں
خشک تھے چہرے کے برگ و بار ، میں دھوتا رہا

Related posts

Leave a Comment