رفیع الدین راز ۔۔۔ کھل گیا شاید لبوں پر تشنگی کا ذائقہ

کھل گیا شاید لبوں پر تشنگی کا ذائقہ
خون کی ہر بوند میں ہے زندگی کا ذائقہ

خود ستائش کے جلو میں، آگہی کے زعم میں
بارہا چکھا ہے میں نے گمرہی کا ذائقہ

تیرگی میں، ماہ و انجم کی ضیا بڑھ جاتی ہے
غم کی قربت سے نکھرتا ہے خوشی کا ذائقہ

گمرہی کے روز و شب کاٹے ہیں میں نے مجھ سے پوچھ
جاںفزا ہوتا ہے کتنا آگہی کا ذائقہ

خیمۂ صبر و قناعت میں بھی بیٹھو دو گھڑی
چکھ کے تو دیکھو کبھی اس سادگی کا ذائقہ

کھل گیا ہے آنکھ پر شاید بصارت کا فریب
دل سے پوچھا ہے نظر نے روشنی کا ذائقہ

کیوں گمانِ مطربہ ہے اشک کی ہر بوند پر
آنسوئوں نے چکھ لیا ہے کیا ہنسی کا ذائقہ

دل تو دل ہے روح کی وادی میں بھی موجود ہے
آج میری آنکھ کی تازہ نمی کا ذائقہ
اس پہ کوئی تبصرہ بینائی کر سکتی نہیں
آنکھ نے چکھّا نہ ہو جس روشنی کا ذائقہ

خاص اک نسبت ہے اس کی آدمی کی ذات سے
ہر کسی کے خون میں ہے بے حسی کا ذائقہ

ایک ہی جیسی ہے لذت، ایک جیسا ہے سرور
بے خودی کا ذائقہ ہو یا خودی کا ذائقہ

Related posts

Leave a Comment