رفیع الدین راز ۔۔۔ کھل گیا شاید لبوں پر تشنگی کا ذائقہ

کھل گیا شاید لبوں پر تشنگی کا ذائقہ خون کی ہر بوند میں ہے زندگی کا ذائقہ خود ستائش کے جلو میں، آگہی کے زعم میں بارہا چکھا ہے میں نے گمرہی کا ذائقہ تیرگی میں، ماہ و انجم کی ضیا بڑھ جاتی ہے غم کی قربت سے نکھرتا ہے خوشی کا ذائقہ گمرہی کے روز و شب کاٹے ہیں میں نے مجھ سے پوچھ جاںفزا ہوتا ہے کتنا آگہی کا ذائقہ خیمۂ صبر و قناعت میں بھی بیٹھو دو گھڑی چکھ کے تو دیکھو کبھی اس سادگی کا ذائقہ…

Read More

رفیع الدین راز ۔۔۔ چشمِ نم تو ہے وہی لیکن ضیا کچھ اور ہے

چشمِ نم تو ہے وہی لیکن ضیا کچھ اور ہے زخمِ تازہ پر نمک کا ذائقہ کچھ اور ہے لب نہیں حسرت گزیدہ آنکھ ہے محوِ دعا اس کو آنکھوں ہی سے سنیے یہ دعا کچھ اورہے سامنے ہر پل نصابِ زیست ہے لیکن ہنوز پڑھ رہا ہوں اور کچھ لکھّا ہوا کچھ اور ہے رشتے ناتے، آشنائی، قربتیں اپنی جگہ آدمی سے آدمی کا رابطہ کچھ اور ہے جس تناظر میں اسے میری گواہی چاہیے عبد اور معبود کا وہ سلسلہ کچھ اور ہے فتح بھی دیتی رہی ہے…

Read More

رفیع الدین راز

روئے سخن کدھرہے خبر ہے مجھے جناب غافل نہیں ہوں صرفِ نظر کر رہا ہوں میں

Read More

رفیع الدین راز… مہ و خورشید و اختر لکھ رہا ہوں

مہ و خورشید و اختر لکھ رہا ہوںترے چہرے کا منظر لکھ رہا ہوں بہت تذلیل آنکھوں کی ہوئی ہےسو اب ہر غم کو اندر لکھ رہا ہوں حرارت وقت کی کیسے نہ ہو گیمیں ہر لمحے کو چھو کر لکھ رہا ہوں سرابوں کا بھرم رکھنے کی خاطرمیں صحرا کو سمندر لکھ رہا ہوں میں ایسے دور میں زندہ ہوں اب تکجبھی خود کو سکندر لکھ رہا ہوں دیے کی ٹمٹماتی لَو کو بھی میںسفیرِ شاہِ خاور لکھ رہا ہوں میں اپنے قد کو اے آلامِ ہستیترے قد کے…

Read More