رفیع الدین راز ۔۔۔ چشمِ نم تو ہے وہی لیکن ضیا کچھ اور ہے

چشمِ نم تو ہے وہی لیکن ضیا کچھ اور ہے زخمِ تازہ پر نمک کا ذائقہ کچھ اور ہے لب نہیں حسرت گزیدہ آنکھ ہے محوِ دعا اس کو آنکھوں ہی سے سنیے یہ دعا کچھ اورہے سامنے ہر پل نصابِ زیست ہے لیکن ہنوز پڑھ رہا ہوں اور کچھ لکھّا ہوا کچھ اور ہے رشتے ناتے، آشنائی، قربتیں اپنی جگہ آدمی سے آدمی کا رابطہ کچھ اور ہے جس تناظر میں اسے میری گواہی چاہیے عبد اور معبود کا وہ سلسلہ کچھ اور ہے فتح بھی دیتی رہی ہے…

Read More