رفیع الدین راز ۔۔۔ چشمِ نم تو ہے وہی لیکن ضیا کچھ اور ہے

چشمِ نم تو ہے وہی لیکن ضیا کچھ اور ہے
زخمِ تازہ پر نمک کا ذائقہ کچھ اور ہے

لب نہیں حسرت گزیدہ آنکھ ہے محوِ دعا
اس کو آنکھوں ہی سے سنیے یہ دعا کچھ اورہے

سامنے ہر پل نصابِ زیست ہے لیکن ہنوز
پڑھ رہا ہوں اور کچھ لکھّا ہوا کچھ اور ہے

رشتے ناتے، آشنائی، قربتیں اپنی جگہ
آدمی سے آدمی کا رابطہ کچھ اور ہے

جس تناظر میں اسے میری گواہی چاہیے
عبد اور معبود کا وہ سلسلہ کچھ اور ہے

فتح بھی دیتی رہی ہے داد ہمت کی مگر
جو ہزیمت نے دیا وہ حوصلہ کچھ اور ہے

سامنے وہ ہے تو کیوں اب تک بدن پگھلا نہیں
یہ مرا پیکر نہیں پیشِ خدا کچھ اور ہے

حسرتوں کی بادِ صرصر رقص میں ہے دور تک
شہرِ جاں کی ان دنوں آب و ہوا کچھ اور ہے

دور رہ کر بھی میسر ہے مجھے قربت کا لمس
دو کناروں سے جڑا یہ فاصلہ کچھ اور ہے

پتھروں کی زدمیں رہ کر بھی ہے اب تک خوش جمال
دل نہیں سینے میں یہ شیشہ نماکچھ اور ہے

رازؔ پہلے دل میں جھانکو پھر اسے ڈھونڈو کہیں
تم سے کس نے کہہ دیا اس کا پتا کچھ اور ہے

Related posts

Leave a Comment