خاور اعجاز ۔۔۔ واپسی

واپسی
۔۔۔۔۔
زمانے!
مِرے ریگزارِ تمنّامیں
اِک گنبدِ خواب کے پاس
کچھ پھُول رکھّے ہیں
اور دو کٹورے ہیں آنکھوں کے
جن میں مِرے آنسوئوں کی نمی ہے
مِرے گیت ہونٹوں سے گِر کر
اِسی ریت میں ریت ہو کر پڑے ہیں
بچھڑ جانے والوں کی یادیں ہی زندہ ہیں
چہرے نہ جانے کہاں کھو گئے ہیں
سلگتی ہُوئی نیند باقی ہے
آنکھیں نہ جانے کہاں کھو گئی ہیں
تھکن جسم کی قبر میں سو گئی ہے
اُداسی مِری ہم سفر ہو گئی ہے

زمانے!
مِرے آخری رقص کا وقت ہے
وحشتِ شوق صندل کی مانند جلنے لگی ہے
رگ و پے میں
اَن دیکھی دُنیا کی خواہش مچلنے لگی ہے
چمکتی ہے تلوار سی کوئی قربِ گلو میں
ہے گونجی ہُوئی اِک ندا چار سُو میں
اُسی مہرباں کی
جو نیندوں کی سرحد پہ بھی جاگتا ہے

زمانے!
تو کیا مَیں تِرے راستے پر نہیں چل رہا ہُوں
جو اِس طور دہکی ہُوئی آگ میں جل رہا ہُوں
مگر تجھ کو معلوم ہو گا
مِرے ریگزارِ تمنا میں
کچھ پھُول رکھّے ہیں
جومَیں تِری نذر کو لا رہا ہُوں
زمانے!
پکارا ہے تُو نے
تو مَیں آ رہا ہُوں

Related posts

Leave a Comment