راحت سرحدی ۔۔۔ سلام

ذکرِ شبیر سے نکل آیا
خُون تحریر سے نکل آیا

دیکھتا تھا فُرات وہ چشمہ
جو رگِ پیر سے نکل آیا

گل شدہ اک چراغِ خیمہ بھی
بڑھ کے تنویر سے نکل آیا

روح نکلی غبار سے دل کے
جِسم زنجیر سے نکل آیا

وہ شہادت کہ جس میں خوں کی جگہ
نور ہر چیر سے نکل آیا

اس کو تلوار نے لیا راحت
بچ کے جو تیر سے نکل آیا

Related posts

Leave a Comment