میر تقی میر ۔۔۔۔ رباعیات

کیسا احساں ہے خلق عالم کرنا پھر عالمِ ہستی میں مکرم کرنا تھا کارِ کرم ہی اے کریمِ مطلق ناچیز کفِ خاک کو آدم کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دل جان جگر آہ جلائے کیا کیا درد و غم و آزار کھنچائے کیا کیا ان آنکھوں نے کی ہے ترک مردم داری دیکھیں تو ہمیں عشق دکھائے کیا کیا ۔۔۔۔۔۔ شب ابر کہ پیشرو ہو دریا جس کا آیا دل داغ کر گیا جس تس کا اس سے ناگاہ ایک بجلی چمکی کیا جانیے ان نے گھر جلایا کس کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابرو سے…

Read More

احمد مشتاق … یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں

یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں اُسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں یہ رستے رہروؤں سے بھاگتے ہیں یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے اِسے دیکھیں کہ اِس میں ڈوب جائیں جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں انھیں پھر اپنے سینے سے لگائیں چلو ایسا مکاں آباد کر لیں جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں

Read More

رسا چغتائی ۔۔۔ ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں خدا جانے مری گٹھری میں کیا ہے نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں یہ کوئی اور ہے اے عکسِ دریا میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں نہ آدم ہے نہ آدم زاد کوئی کن آوازوں سے سر ٹکرا رہا ہوں مجھے اس بھیڑ میں لگتا ہے ایسا کہ میں خود سے بچھڑ کے رہ گیا ہوں جسے سمجھا نہیں شاید کسی…

Read More

نظام رامپوری ۔۔۔ عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے

عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے یہ لطف ہے ستم بھی ہے عذرِ ستم بھی ہے الفت مجھے جتاتے ہو دل میں بھی درد ہے رونے کا منہ بناتے ہو آنکھوں میں نم بھی ہے اس بت کا وصل تھا تو خدائی کا عیش تھا یہ جانتے نہ تھے کہ زمانے میں غم بھی ہے تسکین میرے دل کی اور اس بے وفا کا قول دل میں فریب بھی ہے، لبوں پر قسم بھی ہے اب آؤ مل کے سو رہیں، تکرار ہو چکی…

Read More

محمد علوی ۔۔۔ شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں

شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں ادھر اس پار کیا ہے یہ کبھی سوچا نہیں میں نے مگر میں روز کھڑکی سے سمندر دیکھ لیتا ہوں سڑک پہ چلتے پھرتے دوڑتے لوگوں سے اکتا کر کسی چھت پر مزے میں بیٹھے بندر دیکھ لیتا ہوں یہ سچ ہے اپنی قسمت کوئی کیسے دیکھ سکتا ہے مگر میں تاش کے پتے اٹھا کر دیکھ لیتا ہوں گلی کوچوں میں چوراہوں پہ یا بس کی قطاروں میں میں…

Read More

محمد علوی ۔۔۔ یوں تو کم کم تھی محبت اس کی

یوں تو کم کم تھی محبت اس کی کم نہ تھی پھر بھی رفاقت اس کی سارے دکھ بھول کے ہنس لیتا تھا یہ بھی تھی ایک کرامت اس کی الجھنیں اور بھی تھیں اس کے لیے ایک میں بھی تھا مصیبت اس کی پہلے بھی پینے کو جی کرتا تھا مل ہی جاتی تھی اجازت اس کی خواب میں جیسے چلا کرتا ہوں دیکھتا رہتا ہوں صورت اس کی نام رہتا ہے زباں پر اس کا گھر میں رہتی ہے ضرورت اس کی اس کی عادت تھی شرارت کرنا…

Read More