نظام رامپوری ۔۔۔ عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے

عادت سے ان کی دل کو خوشی بھی ہے غم بھی ہے

یہ لطف ہے ستم بھی ہے عذرِ ستم بھی ہے

الفت مجھے جتاتے ہو دل میں بھی درد ہے

رونے کا منہ بناتے ہو آنکھوں میں نم بھی ہے

اس بت کا وصل تھا تو خدائی کا عیش تھا

یہ جانتے نہ تھے کہ زمانے میں غم بھی ہے

تسکین میرے دل کی اور اس بے وفا کا قول

دل میں فریب بھی ہے، لبوں پر قسم بھی ہے

اب آؤ مل کے سو رہیں، تکرار ہو چکی

آنکھوں میں نیند بھی ہے بہت، رات کم بھی ہے

نومیدی بھی ہے وصل سے اس کے امید بھی

کچھ دردِ دل بڑھا بھی ہے کچھ رنج کم بھی ہے

یہ بات گر نہ ہو تو کرے کون حوصلہ

ملنا کسی کا سہل بھی ہے اور الم بھی ہے

جاتا ہے شک بھی کر گیا ہے وہم میں وہ شوخ

کوچے میں غیر ہی کے نشانِ قدم بھی ہے

باہم تپاک بھی ہیں کبھی رنجشیں بھی ہیں

لطف و کرم بھی ہے کبھی جور و ستم بھی ہے

آ جائیں وہ مگر مجھے آتا نہیں یقیں

قاصد کا جو ہے قول وہ خط میں رقم بھی ہے

بگڑے ہوئے ہیں آج خدا خیر ہی کرے

کچھ بل بھی ہے جبیں پہ کچھ ابرو پہ خم بھی ہے

مر جاتے ہم تو کب کے اجل دیکھتی ہے تو

فرصت کسی کے غم سے ہمیں کوئی دم بھی ہے

کہنے کو دو مکاں ہیں کہیں تو ہے ایک ہی

بیت الصنم ہے جو وہی بیت الحرم بھی ہے

یوں کہہ کے بھول جانا یہ خو آپ ہی کی ہے

مجھ کو وہ یاد عہد بھی ہے، وہ قسم بھی ہے

جب کچھ کہوں تو کہتے ہیں یہ پھر سنوں گا میں

پھر ایسا کوئی وقت بھی ہے کوئی دم بھی ہے

کیسا وصال و ہجر اگر فہم ہے نظام

ہر حال میں جدا بھی ہے وہ اور بہم بھی ہے

Related posts

Leave a Comment