راحت سرحدی ۔۔۔ میں جو ذرا ہنس گا لیتا ہوں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

میں جو ذرا ہنس گا لیتا ہوں اس دنیا کا کیا لیتا ہوں پی کر تھوڑی دیر غموں سے اپنی جان چھڑا لیتا ہوں آئینے سے باتیں کر کے دل اپنا بہلا لیتا ہوں تنہائی میں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ کو پا لیتا ہوں میں دانستہ بھی اپنوں سے دھوکہ شوکا کھا لیتا ہوں گر ہو اجازت تھوڑا تیرے سائے میں سستا لیتا ہوں کاٹے سے کٹتی نہیں راحت جس شب خود کو آ لیتا ہوں

Read More

راحت سرحدی ۔۔۔ تا کوئی سن نہ سکے منت و زاری اُس کی

تا کوئی سن نہ سکے منت و زاری اُس کی میں نے آنے ہی نہیں دی کبھی باری اُس کی داؤ جب آنکھ کا لگتا ہے اُلٹ کر پتے بازیاں ہار کے اٹھتے ہیں جواری اُس کی پھول جھڑتے تو کبھی گرتے ستارے موتی گفتگو بڑھ کے تھی ہونٹوں سے بھی پیاری اُس کی بات کی اور نہ وہ بہتی ہوئی آنکھیں دیکھیں ان سنی کر کے سنی گریہ و زاری اُس کی رات جو آگ مرے دل میں لگی صبح کے وقت عرش پر دیکھ ذرا کار گزاری اُس…

Read More

راحت سرحدی ۔۔۔ آئنہ دل اور ستارہ ٹوٹ کر

آئنہ دل اور ستارہ ٹوٹ کر جڑ نہیں سکتا دوبارہ ٹوٹ کر آج بھی ہے آنکھ میں اُس کی خلش چبھ گیا تھا اک نظارہ ٹوٹ کر اُس کے قدموں میں بکھرنے کے لیے پھول کرتے ہیں اشارہ ٹوٹ کر زندگی کیا ہے بڑی آسانی سے کہہ گیا مجھ کو ستارہ ٹوٹ کر جا لگا چُپ چاپ دریا کے گلے ایک دن آخر کنارہ ٹوٹ کر تم کو ثابت دیکھ کر حیرت ہوئی جس جگہ پر ہے گزارہ ٹُوٹ کر ہاتھ کب آتا ہے راحت سرحدی تار سے گیسی غبارہ…

Read More

راحت سرحدی ۔۔۔ آئنہ دل اور ستارہ ٹوٹ کر

آئنہ دل اور ستارہ ٹوٹ کر جڑ نہیں سکتا دوبارہ ٹوٹ کر آج بھی ہے آنکھ میں اُس کی خلش چبھ گیا تھا اک نظارہ ٹوٹ کر اُس کے قدموں میں بکھرنے کے لیے پھول کرتے ہیں اشارہ ٹوٹ کر زندگی کیا ہے بڑی آسانی سے کہہ گیا مجھ کو ستارہ ٹوٹ کر جا لگا چُپ چاپ دریا کے گلے ایک دن آخر کنارہ ٹوٹ کر تم کو ثابت دیکھ کر حیرت ہوئی جس جگہ پر ہے گزارہ ٹُوٹ کر ہاتھ کب آتا ہے راحت سرحدی تار سے گیسی غبارہ…

Read More

راحت سرحدی ۔۔۔ سلام

ذکرِ شبیر سے نکل آیا خُون تحریر سے نکل آیا دیکھتا تھا فُرات وہ چشمہ جو رگِ پیر سے نکل آیا گل شدہ اک چراغِ خیمہ بھی بڑھ کے تنویر سے نکل آیا روح نکلی غبار سے دل کے جِسم زنجیر سے نکل آیا وہ شہادت کہ جس میں خوں کی جگہ نور ہر چیر سے نکل آیا اس کو تلوار نے لیا راحت بچ کے جو تیر سے نکل آیا

Read More

راحت سرحدی ۔۔۔ کہنی تو ضروری نہیں ہر بات سمجھ لے

کہنی تو ضروری نہیں ہر بات سمجھ لے صورت سے مری صورتِ حالات سمجھ لے بہروں میں بھی ممکن ہے کوئی بات سمجھ لے مجھ پر جو اتاری گئیں آیات سمجھ لے ہم جیسوں کو مرنے سے بچانے کے بہانے احباب نے کی ہیں جو عنایات سمجھ لے پارے کی طرح ٹوٹ کے جڑ جاتا ہوں پھر سے بے شک تو اِسے میری کرامات سمجھ لے تسکین نظر کو تو بہت کچھ ہے ترے پاس وہ آنکھ نہیں جو مرے جذبات سمجھ لے ہر ایک پہ کھلتے نہیں بت خانوں…

Read More