راحت سرحدی ۔۔۔ کہنی تو ضروری نہیں ہر بات سمجھ لے

کہنی تو ضروری نہیں ہر بات سمجھ لے
صورت سے مری صورتِ حالات سمجھ لے

بہروں میں بھی ممکن ہے کوئی بات سمجھ لے
مجھ پر جو اتاری گئیں آیات سمجھ لے

ہم جیسوں کو مرنے سے بچانے کے بہانے
احباب نے کی ہیں جو عنایات سمجھ لے

پارے کی طرح ٹوٹ کے جڑ جاتا ہوں پھر سے
بے شک تو اِسے میری کرامات سمجھ لے

تسکین نظر کو تو بہت کچھ ہے ترے پاس
وہ آنکھ نہیں جو مرے جذبات سمجھ لے

ہر ایک پہ کھلتے نہیں بت خانوں کے رستے
مجھ سے یہ کمالات و طلسمات سمجھ لے

پھر بعد میں دریاؤں کے نغمات سنانا
پہلے ذرا صحراؤں کے حالات سمجھ لے

اُن بھیگتی آنکھوں میں بھی پیغام وہی تھا
ہر چھت پہ سناتی ہے جو برسات سمجھ لے

قبضے میں دڈیروں کے زمینیں ہیں تو راحت
تو صحن کے پودوں کو ہی باغات سمجھ لے

Related posts

Leave a Comment