راحت سرحدی ۔۔۔ تا کوئی سن نہ سکے منت و زاری اُس کی

تا کوئی سن نہ سکے منت و زاری اُس کی
میں نے آنے ہی نہیں دی کبھی باری اُس کی

داؤ جب آنکھ کا لگتا ہے اُلٹ کر پتے
بازیاں ہار کے اٹھتے ہیں جواری اُس کی

پھول جھڑتے تو کبھی گرتے ستارے موتی
گفتگو بڑھ کے تھی ہونٹوں سے بھی پیاری اُس کی

بات کی اور نہ وہ بہتی ہوئی آنکھیں دیکھیں
ان سنی کر کے سنی گریہ و زاری اُس کی

رات جو آگ مرے دل میں لگی صبح کے وقت
عرش پر دیکھ ذرا کار گزاری اُس کی

یاد کا کیل نکالا نہ گیا جب میں نے
دل کی دیوار سے تصویر اتاری اُس کی

لازماً کچھ تو دکھایا ہے کہ بیعت کے لیے
چومتے پھرتے ہیں پاپوش مداری اُس کی

چھین کر اور کوئی چلتا بنا وجہِ فساد
ہم رہے سوچتے آپس میں ہماری اُس کی

خون کے داغ بھی بن جائیں گے عظمت کے نشاں
یاد کی جائے گی ہر نقش نگاری اُس کی

لاٹری روز نکلتی ہے کسی اور کے نام
میری آتی ہے کبھی اور نہ باری اُس کی

عشق تو کچھ بھی نہیں جل کے یہ معلوم ہوا
یوں ہی دل پر مرے وحشت رہی طاری اُس کی

اب تو ہر شخص کم و بیش اسی خوف میں ہے
کھل نہ جائے کہیں رستے میں پٹاری اُس کی

جو چلاتی تھی مقدر کے ستارے میرے
اَڑ گئی مجھ کو تو لگتا ہے غراری اُس کی

پیڑ سے لکڑی بنا ڈالا ہے جس نے راحت
زنگ کی موت مرے گی کبھی آری اس کی

Related posts

Leave a Comment