عزیز عادل ۔۔۔ دو غزلیں

اک آوارہ ہوک
سناٹے کی کوک

میرا جسم نہ کاٹ
مجھ میں پلتی بھوک

دریا دریا جھوم
آئینے پر تھوک

میرا عشق مجاز
تیرا حسن سلوک
تو منزل کی چھاپ
میں رستہ متروک

عادل کر آزاد
دل میرا مملوک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رنگ ہے روشنی ہے تو ہے ابھی
ہر خوشی میرے روبرو ہے ابھی

میری آنکھوں کی سبز کھیتی میں
اک ترے خواب کی نمو ہے ابھی

میں تجھے سوچنے سے قاصر ہوں
میں تجھے دیکھتا ہوں، تو ہے ابھی

ساغر و مینا ہیں بہم لیکن
تیرا ہونا مجھے سبو ہے ابھی

تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے
پر تصور میں روبرو ہے ابھی

میں ترے حافظے میں رہتا ہوں
یعنی الفت کی آبرو ہے ابھی

مہرباں تیری مہربانی سے
درد کی سانس مشکبو ہے ابھی

وہ ہے خنجر بدست، ہو عادل
گرم اپنا بھی کچھ لہو ہے ابھی

Related posts

Leave a Comment