راحت سرحدی ۔۔۔ آئنہ دل اور ستارہ ٹوٹ کر

آئنہ دل اور ستارہ ٹوٹ کر
جڑ نہیں سکتا دوبارہ ٹوٹ کر

آج بھی ہے آنکھ میں اُس کی خلش
چبھ گیا تھا اک نظارہ ٹوٹ کر

اُس کے قدموں میں بکھرنے کے لیے
پھول کرتے ہیں اشارہ ٹوٹ کر

زندگی کیا ہے بڑی آسانی سے
کہہ گیا مجھ کو ستارہ ٹوٹ کر

جا لگا چُپ چاپ دریا کے گلے
ایک دن آخر کنارہ ٹوٹ کر

تم کو ثابت دیکھ کر حیرت ہوئی
جس جگہ پر ہے گزارہ ٹُوٹ کر

ہاتھ کب آتا ہے راحت سرحدی
تار سے گیسی غبارہ ٹوٹ کر

Related posts

Leave a Comment