سید ضیا حسین ۔۔۔ جو تھا نہ کسی کا، وہ ہمارا بھی نہیں تھا

جو تھا نہ کسی کا، وہ ہمارا بھی نہیں تھا
پر اُس کے بِنا اپنا گزارہ بھی نہیں تھا

کرتا تھا برائی جو مِرے آگے تمہاری
میرا تو نہیں تھا، وہ تمہارا بھی نہیں تھا

میں ڈوب رہا تھا تو فقط اُس نے بچایا
حالانکہ اُسے میں نے پکارا بھی نہیں تھا

جلدی تھی اسے آنے کی سب ہی کے مُقابِل
صدقہ تو ابھی میں نے اتارا بھی نہیں تھا

خواہش تھی سبھی کی کہ گرفتار ہوں اُس کے
زلفوں کو ابھی جس نے سنوارا بھی نہیں تھا

رخصت وہ ہوا جونہی، پریشان ہوں تب سے
رکنے کے لیے میں نے پکارا بھی نہیں تھا

اب روتے ہو تم ہجر میں بھر بھر کے یوں آہیں
ہر چند کہ وہ راج دلارا بھی نہیں تھا

تھی مجھ کو ضرورت بھی اُسی فیض رساں کی
احسان مگر اُس کا گوارا بھی نہیں تھا

اک حور کی مانند وہ لگتی تھی سراسر
جنّت سے جسے رب نے اتارا بھی نہیں تھا

تھی رات بہت کالی، اجی! چاند کو چھوڑیں
اُس رات فلک پر تو ستارہ بھی نہیں تھا

اِس کھیل میں پڑنے سے تھا دونوں کو تذبذب
اِس کھیل میں حالانکہ خسارا بھی نہیں تھا

چاہا تھا لگے آگ محبت کی اُدھر بھی
اُس دل میں تو ہلکا سا شرارہ بھی نہیں تھا

بے سمت ہی بڑھتی رہی کشتی یہ ہماری
اس بحرِ محبت کا کنارا بھی نہیں تھا

آئے ہیں سبھی یار، ضیاؔ! سننے کو غزلیں
تم نے تو ابھی اِن کو سنوارا بھی نہیں تھا

Related posts

Leave a Comment