شاعر علی شاعر ۔۔۔ بعد مدت کے بچھڑ جانے کا موسم آیا

بعد مدت کے بچھڑ جانے کا موسم آیا
پھر دلِ وحشی کے گھبرانے کا موسم آیا

نخرے ساقی ترے برداشت کریں گے پھر سے
پھر ترے جام کا، میخانے کا موسم آیا

کتنی مشکل سے بسایا تھا دلِ ویراں کو
وائے قسمت کہ اُجڑ جانے کا موسم آیا

اب مرے زخم ہرے ہونے لگے ہیں، دل بر!
اب میں سمجھا کہ ترے آنے کا موسم آیا

آ کہ گلشن پہ بہاروں نے جمایا قبضہ
آ کہ روحوں میں اُتر جانے کا موسم آیا

دیکھ راحت کی طلب میں وہ چلا صحرا کو
موسمِ گل نہیں ، دیوانے کا موسم آیا

گل کی آغوشِ رفاقت میں مقید تھی کبھی
اب تو خوشبو کے بکھر جانے کا موسم آیا

آمدِ یار کا پیغام ملا اب مجھ کو
جب بہاروں کے گزر جانے کا موسم آیا

ہونے والا ہے ترا ہجر بھی رخصت مجھ سے
’’شاید اب جاں سے گزر جانے کا موسم آیا‘‘

اب کے برسات گزارے نہ اکیلا شاعرؔ
اُس کے محبوب کو سمجھانے کا موسم آیا

Related posts

Leave a Comment