بیدل حیدری ۔۔۔ خزاں

خزاں ۔۔۔۔ گرد اُڑاتی ہوئی خزائوں کے سر پہ وحشت کا بھوت طاری ہے سوکھے پتوں کا رقص جاری ہے فاختائیں اداس بیٹھی ہیں جو بھی شاخِ چمن ہے، ننگی ہے سارے گلشن میں خانہ جنگی ہے چہرہ اُترا ہوا ہے لمحوں کا چل رہی ہے ہوائے یرقانی رقص کرتی ہے خانہ ویرانی کہیں سبزہ نظر نہیں آتا یعنی کھا کھا کے زیست کے غم کو پیلیا ہو گیا ہے موسم کو ساتھیو!وقت کی رگ و پَے میں اپنے جسموں کا خونِ تازہ بھرو اس خزاں کا کوئی علاج کرو…

Read More

بیدل حیدری

پانی کی ایک بوند سی کھڑکی سے گر پڑی اب کے کمال سایہء دیوار کر گیا

Read More