ڈاکٹر اسحاق وردگ

ہمارے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا تھا وہ اِک بندہ خُدا ہونے سے پہلے

Read More

اسحاق وردگ ۔۔۔ چاک پر بے بسی بناتا ہوں

چاک پر بے بسی بناتا ہوں یعنی میں زندگی بناتا ہوں باندھ دیتا ہوں دھوپ ساحل پر کشتیاں، موم کی بناتا ہوں نیند سے اور کچھ نہیں بنتا اِس لیے خواب ہی بناتا ہوں سانس ہوتا ہے زندگی کے لیے اِس سے میں خودکشی بناتا ہوں یہ ضرورت ہے شہر والوں کی اِس لیے سادگی بناتا ہوں میری تکمیل ہو نہ جائے کہیں روز خود میں کمی بناتا ہوں حسن، مصرع اٹھانے آتا ہے عشق سے شاعری بناتا ہوں اِس میں سایہ کہاں سے بنتا ہے میں تو دیوار ہی…

Read More

گم شدہ اذان کے انتظار میں نظم… اسحاق وردگ

گم شدہ اذان کے انتظار میں نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہر کی قربت میں آباد گائوں (جس کا فطرت سے ازل کا رشتہ ابھی ٹوٹا نہیں) سے آتی ہوئی ضعیف بابا جی کی آواز میں صبح کی اذان کی پہلی گونج شہر کی فضائوں میں جلوہ افروز ہوئی تو زمین کے سینے پر وقت نے کروٹ بدلی باباجی نے جسمانی ضعف کے باوجود اپنی روح سے کشیدکیے گئے طلسم سے سانس کا زیر وبم قائم رکھا اور آنسوئوں کی سوغات میں دل سے لب تک اپنی آواز کو با وضو کیا (تاکہ…

Read More

فراز صاحب(خاکہ) ۔۔۔ اسحاق وردگ

فراز صاحب (خاکہ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم وہ خوش نصیب نسل ہیں جسے احمد فراز صاحب سے ملنے،شعر سننے،مکالمہ کرنے،ہاتھ ملانے اور آٹوگراف لینے کے بے شمار مواقع انعام ہوئے۔۔۔! یہ دیارِ ادب میں خوش نصیبی کی اعلا مثال ہے کہ فراز صاحب پشاور میں پلے بڑھے،ادبی اٹھان کی خوش بختی ملی۔۔۔ مجھے بھی اس شہرِ ہفت زبان میں جنم لینے، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے اور ان گلیوں میں سانس لینے کے موسم ملے ۔۔۔ آج بھی پشاور کے قہوہ خانوں، ادبی حجروں اور شہر کی قدیم گلیوں میں فراز صاحب کے…

Read More

ڈاکٹر اسحاق وردگ ۔۔۔۔۔۔ مرے لیے تو یہ بےکار ہونے والا ہے

مرے لیے تو یہ بےکار ہونے والا ہے یہ دل کہ عشق سے بے زار ہونے والا ہے میں اُس سے خواب کے رستے پہ ملنے آیا ہوں مگر وہ نیند سے بیدار ہونے والا ہے سناہے یوسف ِ ثانی کبھی نہیں آیا سنا ہے ختم وہ بازار ہونے والا ہے میں جس کے نام کے اک دائرے کا قیدی ہوں خبر نہ تھی کہ وہ پَرکار ہونے والا ہے وہ جس کے ہاتھ سے قصے نے موت پائی ہے سناہے صاحب ِ کردار ہونے والا ہے جو فیصلہ سر…

Read More

اسحاق وردگ ۔۔۔۔۔ کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا

کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا تتلی کی اُداسی کو بھی امکان میں رکھنا میں عشق ہوں اور میرا نہیں کوئی ٹھکانہ اے حسن! مجھے دیدۂ حیران میں رکھنا شاید میں کسی اور زمانے میں بھی آؤں ممکن تو نہیں ہے مگر امکان میں رکھنا اب مرکزی کردار تمھارا ہے، مرے دوست! تم میری کہانی کو ذرا دھیان میں رکھنا یہ راہِ محبت تو فقط بند گلی ہے آسان سے رستے کو بھی سامان میں رکھنا

Read More