اسحاق وردگ ۔۔۔ رات ہوتے ہی چل پڑوں گا میں

غزل (جنم دن 24 اپریل کے ہنگام پر)رات ہوتے ہی چل پڑوں گا میںشہر میں شام تک رہوں گا میںنئے چہروں کے ساتھ خوابوں میںخود سے ہر موڑ پر ملوں گا میںزندہ رہنے کی خاص خواہش میںعشق کی آگ میں جلوں گا میںمیں اگر وجد سے نکل آیاراز کی بات ہی کروں گا میںمجھ سے میں نے کبھی نہیں ملناراستہ دیکھتا رہوں گا میںشہرِ دلی! تری فضائوں میںمیر صاحب سے مل سکوں گا میں؟کیا کبھی ذات کی خموشی میںاپنی آواز کو سنوں گا میںاک نجومی نے کل بتایا ہےبے وفائی سے…

Read More

اسحاق وردگ

دیارِ خواب میں غالب کے ساتھ دن گزرا تو رات میر کے حجرے میں ۔۔۔شام داغ کے ساتھ

Read More

اسحاق وردگ ۔۔۔ چاک پر بے بسی بناتا ہوں

چاک پر بے بسی بناتا ہوں یعنی میں زندگی بناتا ہوں باندھ دیتا ہوں دھوپ ساحل پر کشتیاں، موم کی بناتا ہوں نیند سے اور کچھ نہیں بنتا اِس لیے خواب ہی بناتا ہوں سانس ہوتا ہے زندگی کے لیے اِس سے میں خودکشی بناتا ہوں یہ ضرورت ہے شہر والوں کی اِس لیے سادگی بناتا ہوں میری تکمیل ہو نہ جائے کہیں روز خود میں کمی بناتا ہوں حسن، مصرع اٹھانے آتا ہے عشق سے شاعری بناتا ہوں اِس میں سایہ کہاں سے بنتا ہے میں تو دیوار ہی…

Read More