اسحاق وردگ ۔۔۔ وہ جس میں وقت کی دریا دلی نہیں آتی

وہ جس میں وقت کی دریا دلی نہیں آتی تو میرے ہاتھ پہ ایسی گھڑی نہیں آتی سنا رہا ہے لطائف وہ بادشاہوں کو اُداس شخص، جسے خود ہنسی نہیں آتی دکانِ خواب سجائے ہوئے ملے ہم کو وہ لوگ‘ شب کو جنہیں نیند بھی نہیں آتی میں آٹھ سال سے ان وادیوں میں رہتا ہوں یہ کوہِ قاف ہے لیکن پری نہیں آتی فلک کے رخ پہ دریچے بنانے پڑتے ہیں مکانِ ذات میں جب روشنی نہیں آتی کلامِ میر سناتے رہو ترنم سے ہماری آنکھ میں جب تک…

Read More

اسحاق وردگ ۔۔۔ رات ہوتے ہی چل پڑوں گا میں

غزل (جنم دن 24 اپریل کے ہنگام پر)رات ہوتے ہی چل پڑوں گا میںشہر میں شام تک رہوں گا میںنئے چہروں کے ساتھ خوابوں میںخود سے ہر موڑ پر ملوں گا میںزندہ رہنے کی خاص خواہش میںعشق کی آگ میں جلوں گا میںمیں اگر وجد سے نکل آیاراز کی بات ہی کروں گا میںمجھ سے میں نے کبھی نہیں ملناراستہ دیکھتا رہوں گا میںشہرِ دلی! تری فضائوں میںمیر صاحب سے مل سکوں گا میں؟کیا کبھی ذات کی خموشی میںاپنی آواز کو سنوں گا میںاک نجومی نے کل بتایا ہےبے وفائی سے…

Read More

اسحاق وردگ

دیارِ خواب میں غالب کے ساتھ دن گزرا تو رات میر کے حجرے میں ۔۔۔شام داغ کے ساتھ

Read More

ڈاکٹر اسحاق وردگ

ہمارے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا تھا وہ اِک بندہ خُدا ہونے سے پہلے

Read More