اسحاق وردگ ۔۔۔ وہ جس میں وقت کی دریا دلی نہیں آتی

وہ جس میں وقت کی دریا دلی نہیں آتی
تو میرے ہاتھ پہ ایسی گھڑی نہیں آتی

سنا رہا ہے لطائف وہ بادشاہوں کو
اُداس شخص، جسے خود ہنسی نہیں آتی

دکانِ خواب سجائے ہوئے ملے ہم کو
وہ لوگ‘ شب کو جنہیں نیند بھی نہیں آتی

میں آٹھ سال سے ان وادیوں میں رہتا ہوں
یہ کوہِ قاف ہے لیکن پری نہیں آتی

فلک کے رخ پہ دریچے بنانے پڑتے ہیں
مکانِ ذات میں جب روشنی نہیں آتی

کلامِ میر سناتے رہو ترنم سے
ہماری آنکھ میں جب تک نمی نہیں آتی

فلک سے ٹوٹتے تارے اٹھانے پڑتے ہیں
کسی کو مفت میں جادوگری نہیں آتی

زمین اپنے خزانے لٹاتی رہتی ہے
عجیب بات ہے ان میں کمی نہیں آتی

ہماری راہ کسی اور سمت جاتی ہے
ہماری راہ میں دنیا کبھی نہیں آتی

ہوائے تازہ دکاں سے خرید سکتے‘ کاش!
فلک سے شہر میں اب تازگی نہیں آتی

تو صبح گھر سے مضافات جائیے اسحاق!
فضائے شور میں جب خامشی نہیں آتی

Related posts

Leave a Comment