زاہد محمود زاہد ۔۔۔ اگرچہ شام و سحر در بہ در ہوائیں ہیں

اگرچہ شام و سحر در بہ در ہوائیں ہیں
کسی چراغ کی زد پر مگر ہوائیں ہیں

یہ آگ بڑھنے سے پہلے ہی روک لو ورنہ
جو شعلہ بھڑکا اِدھر تواُدھر ہوائیں ہیں

کوئی چراغ ہمیں روشنی نہیں دیتا
براجمان ہر اک بام پر ہوائیں ہیں

تمھاری آنکھ میں جب دھول جھونکتے گزریں
سمجھ میں آئے گا تب بے خبر! ہوائیں ہیں

گلِ حیات کھلا ہے انھی کے ہونے سے
کہ یہ ہوائیں بہت کارگر ہوائیں ہیں

چراغ تو نے جلایا تو ہے مگر زاہد
سفر ہے شام کا اور کم نظر ہوائیں ہیں

Related posts

Leave a Comment