خالد علیم ۔۔۔ رباعیات

سورج ہے عجیب، کچھ اُجالا کرکے
اک اگلی صبح کا تقاضا کرکے
ہر رات ستاروں کو بجھا دیتا ہے
ہر روز نکلتا ہے تماشا کرکے
٭
حیرت کی فراوانی گھر پر ہے میاں
باہر بھی گھر جیسا منظر ہے میاں
آنکھیں نہ جلا کہ اندروں جل جائے
خاموش کہ خامشی ہی بہتر ہے میاں
٭
کھِل سکتا ہے گوبر سے گُلِ ریحانی
جوہڑ سے نکل سکتا ہے میٹھا پانی
یہ جَہلِ مرکّب جو نہیں تو کیا ہے؟
نادان کی نادانی پر حیرانی
٭
ایسا بھی بے خبر کوئی دل ہوگا؟
جو اپنے پس و پیش سے غافل ہوگا
پہچان نہیں سکا جہالت کا مزاج
مجھ سے بڑھ کر بھی کوئی جاہل ہوگا
٭
بے کار ’’نمی دانم‘‘ و ’’دانم‘‘ کی نمود
موجود کا امکان بھی ہے ناموجود
یہ علم، یہ گیان دھیان، اللہ غنی!
دربارِ جہالت میں یک سَر مردود
٭
کانٹوں کے بدن سے تازگی لیتے ہیں
پانی جو نہیں، سراب پی لیتے ہیں
ہر روز جو تیرا غم ہمیں مارتا ہے
ہر روز نشاطِ غم سے جی لیتے ہیں
٭
بے امکانی کو نذرِ امکان کریں
کچھ جاننے بوجھنے کا سامان کریں
معلوم ہوا کہ کچھ نہ معلوم ہوا؎
آ، اپنی جہالت کا اعلان کریں

؎ ’’معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد‘‘ (نصیرالدین طوسی کی رباعی کا ایک مصرعہ)

Related posts

Leave a Comment