آفتاب حسین

گُزار دی شبِ عُمر اور اس کے بعد کُھلا اُس آنکھ میں بھی کوئی خواب ہے ہمارے لیے

Read More

آفتاب حسین

آفتاب! اپنے تصرف میں نہیں ہیں ہم لوگ لوگ احساس دِلا جاتے ہیں آ کر کیا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: مطلع ناشر: سیمانت پرکاشن، کوچہ روہیلا خاں، دریا گنج، نئی دہلی سنِ اشاعت: ۱۹۹۹ء

Read More

آفتاب حسین ۔۔۔۔ فصیلِ شہرِ تمنا میں در بناتے ہوئے

فصیلِ شہرِ تمنا میں در بناتے ہوئے یہ کون دل میں در آیا ہے گھر بناتے ہوئے نشیبِ چشمِ تماشا بنا گیا مجھ کو کہیں بلندئِ ایام پر بناتے ہوئے میں کیا کہوں کہ ابھی کوئی پیش رفت نہیں گزر رہا ہوں ابھی رہ گزر بناتے ہوئے  کسے خبر ہے کہ کتنے نجوم ٹوٹ گرے شبِ سیاہ سے رنگِ سحر بناتے ہوئے پتے کی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے کبھی کبھی کوئی جھوٹی خبر بناتے ہوئے مگر یہ دل مرا، یہ طائرِ بہشت مرا اُتر ہی آیا…

Read More

آفتاب اقبال شمیم ۔۔۔۔۔ میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ

میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ یہ کارِ عشق مگر ہم سے کیسے سرزد ہو الاؤ تیز ہے، صاحب! ذرا پرے ہو جاؤ تمھاری عمر بھی اس آب کے حساب میں ہے نہیں کہ اس کے برسنے سے تم ہرے ہو جاؤ یہ گوشہ گیر طبیعت بھی ایک محبس ہے ہوا کے لمس میں آؤ، ہرے بھرے ہو جاؤ کبھی تو مطلعِ دل سے ہو اتنی بارشِ اشک کہ تم بھی کھل کے برستے ہوئے کھرے…

Read More

آفتاب اقبال شمیم

آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لائوں موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں

Read More