سراج اورنگ آبادی ۔۔۔ ہوئے ہیں ہم فدا بادِ صبا کے

ہُوئے ہیں ہم فدا بادِ صبا کے کہ آتی ہے گلی سیں دل رُبا کے صنم کس بند سیں پہنچوں ترے پاس ہزاروں بند ہیں تیری قبا کے کر اوس سوزن پلک نے دِل مشبک حمایت کے کیے ہیں بند ناکے ہوئے مستِ الست اس دور میں ہم لیے ہیں اپنے سر وعدے بلا کے نہ ہوں بے گانہ کیوں ہر آشنا سیں کہ ہیں ہم آشنا نا آشنا کے بسایا قول دے ویرانہء دل سبب کیا ہے کہ بھیجا غم کے ڈاکے سراج اُس چشمِ وحشی کوں کیا رام…

Read More

مکینک کہاں گیا ۔۔۔ محمدحامدسراج

مکینک کہاں گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھائو شدید تھا۔اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پائوں کے انگوٹھے سے وہ زمین کرید رہاتھا۔آنکھیں اٹھانا اس تربیت کے خلاف تھاجواس کی طبیعت اورمزاج کا بچپن سے حصہ تھی۔وہ آنکھیں اٹھاکر باپ کے سامنے گستاخی کامرتکب نہیں ہوناچاہتاتھا۔باپ اسے تھپڑ دے مارتاتو وہ سہہ جاناآسان تھا ۔لیکن باپ کی آنکھ میں اُترا غصہ اس کے وجودکوریزہ ریزہ کر گیا۔اپنے وجودکے ریزے چن کردوبارہ سانس بحال کر کے وہ کہیں نکل جاناچاہتاتھا لیکن یہ اتنا آسان…

Read More

سراج الدین ظفر

بُت تو درحقیقت ہیں یادگارِ مے خانہ بچ رہے جو رندوں سے، برہمن کے کام آئے

Read More

سراج اورنگ آبادی

لذت شبِ وصال کی مت پوچھ صبح کوں رہتا نہیں فجر کو مجھے شب کا خواب یاد

Read More

سراج اورنگ آبادی

آ، شتابی کہ آج بے کل ہوں طاقتِ انتظار نئیں ہرگز

Read More