رشید امجد … ڈائری کا اگلا صفحہ

جب سے بیوی فوت ہوئی تھی وہ ایک بنجر کھیت تھا،ہریالی کے تصوّر سے بھی خالی بوند بوند پانی کو ترستا ہوا۔زندگی بس گزررہی تھی،صبح ناشتے پر بیٹے بہو اور ان کے بچوں سے مختصر سی گفتگو،پھر دفتر کی بے رنگ باتیں،فائلوں سے اٹھتی عجیب سی بو،آس پاس کے لوگ بھی اسی کی طرح تھکے ہوئے اور بے زار بے زار سے۔پرسنل سیکریٹری بھی اسی کی طرح اکتائی ہوئی۔فائل لے کر اس کے کمرے میں آتی تو لگتا کسی تالاب کی کائی اکھٹی ہوکر جسم بن گئی ہے۔آدھا گھنٹہ سامنے بےٹھتی تو چار بار پہلو بدلتی۔سرکے بال ایسے بکھرے بکھرے اور پھولے ہوئے کہ اسے گمان ہوتا کہ چڑیوں نے ان میں آلنے بنائے ہوئے ہیں، سارا ماحول ہی زندگی کی ھمکتی لہروں سے عاری تھا۔لگتا کوئی صبح صبح انہیں اس میں دھکیل دیتا ہے اور دن بھر کی اکتاہٹ بھری سرگرمیوں کے بعد وہ جیسے کسی ڈھلوان سے پھسل کر باہر جاگرتے ہیں۔سارا دن دراصل ڈھلوان ہی کا سفر تھا۔
اسی بے زاری کے عالم میں پی اے نے بتایا کہ اس کا ٹرانسفر دوسرے سیکشن میں ہوگیا ہے۔
اور یہاں ۔۔۔۔۔اُس نے سراٹھائے بغیر ہی،فائل پر دستخط کرتے ہوئے پوچھا
ہیڈ آفس سے آرہی ہے۔دوچار دنوں میں جوائن کرلے گی
اُسے کوئی ایسا انتظار بھی نہیں تھا۔کام واجبی سا تھا،کلرک دو تھے۔انہوں نے سنبھال لیا۔اس لئے اُس نے ہیڈ آفس سے پوچھا ہی نہیں کس کو بھیجا ہے۔ شاید اگلے ہفتے یا ایک آدھ دن بعد وہ سرجھکائے کسی فائل کو پڑھ رہا تھا۔دروازے پر ہلکی سے دستک ہوئی اور ایک مترنم آواز آئی۔۔۔سر آجاوں!
اُس نے اثبات سے سر ہلایا
وہ اٹھلاتی ہوئی سامنے کرسی پر بیٹھ گئی
”سر میں آپ کی نئی پی اے ہوں،میرا نام۔۔۔۔۔۔“
اُس نے نام سناہی نہیں کہ اس وقت اس کے سارے وجود میں صرف آنکھیں ہی متحرک تھیں،باقی سارا وجود تو جیسے تھا ہی نہیں۔
”سر میں نے سارا کام سمجھ لیا ہے آپ کو کوئی شکایت نہیں ہوگی“
اثبات میں سر ہلا یا۔ زبان تو باقی وجود کی طرح بول بھول گئی تھی۔
”سر یہ لیٹر دیکھ لیں“ آس نے آگے بڑھ کر کاغذ اس کے سامنے رکھ دیا“۔۔۔۔۔رکھتے ہوئے اتنا جھکی کہ اُس کی نظریں اُس کے ابھرتے سینے میں سے ہوتی ہوئی اس کی ناف تک اتر گئیں۔ پورے جسم میں برقی لہریں دوڑ اُٹھیں کئی برسوں بعد ۔۔۔ بیوی کی وفات کے بعد،اُس نے کسی عورت کو اتنے قریب محسوس کیا تھا،شاید اُس کے ماتھے پر پسینہ آگیا تھا۔
”پانی دوں “سر ۔۔۔۔بولتی تھی تو لگتا تھا چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔
”نہیں نہیں“وہ جلدی سے رومال اور ٹشو سے ماتھا پوچھنے لگا۔
گھنٹی کی آواز پر نائب قاصد اندر آیا تو اُس نے کہا۔۔۔”چائے لے آؤ“
نائب قاصد الٹے پاوں باہر چلا گےا
”ٹرانسفر کیوں ہوا،تمھاری مرضی سے“ وہ اب قدرے سنبھل گیا تھا۔
”معلوم نہیں بس ہوگیا“ وہ بے نیازی سے بولی
”یہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی“ اُس نے دفتری جملہ بولا۔۔۔“یہاں زیادہ کام نہیں
”جی“
”تو ٹھیک ہے“اب اُس کی افسری بحال ہوگئی تھی
اُس نے چائے بناتے ہوئے پوچھا ۔۔۔”سر چینی کتنی“
اُس نے نفی سے سر ہلا دیا۔۔۔”چینی تو عرصہ ہوا چھوڑدی ہے“
جب وہ چائے اس کے سامنے رکھ رہی تھی تو اُس نے اس کی مخروطی انگلیوں کو دےکھا۔دائیں ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی دیکھ کہ اُس نے سوچا ۔۔”شادی شدہ ہے“
معلوم نہیں وہ کتنی دیر بیٹھی رہی۔وہ اسے دفتر کا معمول ،فائلوں کے بارے میں معلومات اور جانے کیا کیا بتا تا رہا۔وہ سر ہلا ہلا کر اس کی بات سنتی رہی۔ہر بار جب سر ہلاتی تو بہت ہی مدھر خوشبو کی لہریں فضا میں تیرتی ہوئیں اس کے سوکھے وجود میں ارتعاش پیدا کرنے لگتیں۔
سوکھا بنجر کھیت،ایک ہلکی سی بدلی فضا میں نمودار ہوئی۔
اگلے چند دنوں میں کچھ باتیں کھلیں۔اس کا شوہر بنک میں تھا۔محبت کی شادی تھی۔ایک بیٹا تھا جو ابھی ابتدائی کلاسوں میں تھا۔پرانی پی اے اس کے کمرے میں آتی تو وہ اسے بھگانے کی کوشش کرتا، عجیب کائی زدہ بو۔۔۔”فائل رکھ جاو،میں دیکھ لوں گا“لیکن اب یوں ہوتا کہ وہ آنے بہانے اسے روک لیتا۔۔۔”ذرا رک جاو میں ابھی دیکھ لیتا ہوں“ اور کوشش کرتا کہ وہ میز پر جھک کر اسے کچھ بتائے۔وہ بھی شاید اسی انتظار میں رہتی۔وہ فائل دیکھتے ہوئے وہ ذرا سا کہیں رکتا تو وہ فوراً جھک کر،بلکہ میز پر لیٹ کر اسے بتاتی۔ایسے اس کے بالوں سے اٹھتی مہک اسے شادباد کردیتی اور نظریں اس کے کھلے گریبان سے ہوتی نیچے تک اترنے کی کوشش کر تیں۔
اسے بھی کھلے گریبان کی قمیض پہنے کی عادت تھی۔اتنا کھلا کہ سینے کے ابھاروں کے اوپری حصے کو باآسانی محسوس کیا جاسکتا تھا اور جب وہ میز پر اتنی جھکی ہو کہ اس کے مہکتے بال سامنے والی پیشانی چومنے کو لپک رہے ہوں تو۔۔۔ا ب وہ ا کثر فائل کے کسی حصے پر اٹک جاتا،وہ لپک کر آگے بڑھتی۔
اسی لپک جھپک میں تین مہینے گزرگئے۔اس کے موڈ کی تبدیلی کو سبھی نے محسوس کیا،بیٹے اور بہو نے بھی ۔ناشتہ کی میز، رات کا کھانا کھاتے ہوئے وہ اکثر خوشگوار موڈ میں دفتر کی باتیں بھی کرنے لگا مگر دانستہ یا نا دانستہ اس کا ذکر نہ کرتا۔
آہستہ آہستہ وہ زیادہ قریب آنے لگی۔گھر سے کچھ نہ کچھ بنالاتی چائے کی پیالی کے ساتھ ورکنگ ٹائپ کا یہ لنچ ایک دوسرے کو جاننے کے کئی مراحل طے کرادیتا۔ پھر وہ لنچ کے لئے باہر جانے لگے۔آگے پیچھے اپنی اپنی گاڑیوں میں نکل جاتے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ایک دوپہر کو جب وہ ریستوران کے باہر اکھٹے ہوئے تو وہ بولی۔۔۔”آج گھر چلتے ہیں، میں صبح کچھ بناکر آئی تھی۔“
”گھر“وہ چہکا۔
”وہاں کون ہے ،میرا میاں تو رات کو آٹھ بجے سے پہلے نہیں آتا اور بیٹا ماموں کے پاس گیا ہوا ہے۔“
فلیٹ شاندار تھا۔وہ لاونج میں صوفے پر بیٹھنے لگا تو وہ اس کا ہاتھ پکڑ کہ بیڈ روم میں لے آئی۔ مدتوں سے پیاسے بنجر کھیت کی مٹی کے کھُلے منہ لبالب بھر گئے۔ بادل ایسا برسا کہ ترواٹ نیچے تہہ میں اتر گئی ۔ سوکھے بیجوں نے آنکھیں کھول دیں اور کونپلیں سر اُٹھانے کے لئے مچلنے لگیں۔
اب اس کا جی چاہتا کہ ہفتے میں دو تین بار لنچ اس کے فلیٹ میں ہی کیا جائے۔وہ اس کا ذہن پڑھ لیتی تھی۔یہ فیےٹ اور بیڈ روم تو اس کا اپنا گھر تھا، گھر جیسا۔اس کا لباس، رویہ، گفتگو ہر شے بدل گئی۔سوٹ کے ساتھ مےچنگ ٹائی،خوش اخلاقی ۔ بہو نے خاوند سے کہا۔۔ایک عرصہ بعد بابا میں پرانی خوش ذوقی لوٹ آئی ہے۔
بیٹے نے اثبات سے سر ہلایا۔
لمحوں کی رنگ برنگی تتلےاں اڑتی رہیں، اتنی اڑیں کہ اندازہ ہی نہ ہوا کہ دو سال گزر گئے۔ اب وہ اس کے ساتھ شاپنگ کے لئے بھی جانے لگی۔شروع شروع میں ذرا جھجکتے ہوئے لیکن اب وہ دھڑلے سے اپنی پسند کی چیزیں خریدتی۔ میاں اور بچے کے لئے بھی خریداری کرتی اور پہلے ذرا شرماتے شرماتے پھر بے تکلفی سے وہ اس کا بٹوہ بھی اٹھانے لگی۔ وہ سرشار تھا، کسے پرواہ تھی کہ کیا کر رہی ہے؟
سال کے آخری دن تھے، صبح ناشتہ کرتے ہوئے بیٹے نے کہا ”کچھ پیسے چاہئیں،انشورنس دینا ہے“
اُس نے کہا۔۔۔”جاتے ہوئے چیک بُک لےتا جاؤں گا، شام کو لے لینا۔“
بینک سے رقم نکلو کر بیلنس پوچھا تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
”کریڈٹ کارڈ کا یہی تو کمال ہے“ وہ بڑبڑایا۔
دفتر پہنچا تو دوسرا جھٹکا لگا،اس کا ٹرانسفر آڈر میز پر پڑا تھا، بیلنس والا معاملہ تو بھول ہی گیا ”یہ کیسے ہوا؟ اُس نے پوچھا”مجھ سے پوچھے بغیر ہی انہوں نے تمہارا ٹرانسفر کردیا ہے۔ ہیڈ آفس میں ایڈمن والوں سے ملاؤ، دوپہر تک نمبر نہیں ملا۔۔ وہ یہی کہتی رہی کہ سیٹ پر کوئی موجود نہیں لنچ کے لئے وہ دونوں اس کے فلیٹ میں پہنچے۔اس کی اداسی دیکھی نہیں جارہی تھی۔ “ٹرانسفر ہی ہوا ہے نا، ملنے پر تو پابندی نہیں لگی، وہ اس کی گردن میں جھولتے ہوئے بولی۔۔۔”تم تو خوامخواہ اتنے پریشان ہوگئے ہو۔ لیکن اسے لگ رہا تھا کہ تماشا اب ختم ہونے کو ہے۔
جانے لگے تو وہ بولی۔۔۔”میں ذرا واش روم ہو آؤں “
بے زاری سے ادھراُدھر دیکھتے ہوئے اس کی نظر میز پر رکھی ڈائری پر پڑی ۔غیرارادی طور پر اُس نے ڈائری اٹھالی۔ کئی لوگوں کے نام تھے جن کے نیچے اعداد شمار درج تھے۔ آخری نام اس کا تھا جس کے نیچے بہت سی جمع تفریق تھی۔
ڈائری اس کے ہاتھ میں دےکھ کر وہ لمحہ بھر کے لئے ٹھٹکی پھر ہنستے ہوئے بولی ”یہ میرے میاں کا ضبط ہے“
اگلے دن اُس کے ریلےونگ آڈر پر دستخط کرتے ہوئے اُس نے اپنے کلرک سے کہا ”اس کا تو نمبر مل ہی نہیں رہا تم ہی کوشش کر کے دےکھو“
کلرک نے بے زاری سے سر جھٹکا ”سرجی اس نے تو خود ٹرانسفر کرائی ہے۔“
”کیا “وہ چونکا۔
”اور کیا جی“ اس کے بارے میں تو مشہور ہے کہ سال ڈیڑھ سال سے زیادہ کہیں نہیں ٹکتی۔“
وہ کچھ نہیں بولا،فائل کلرک کی طرف بڑھاتے ہوئے سوچا”ڈائری کا اگلا صفحہ نئے نام کا انتظار کررہا ہے“۔

Related posts

Leave a Comment