جمیل یوسف ۔۔۔ نہ دن خوش آتا ہے ، نے رات راس آتی ہے

نہ دن خوش آتا ہے ، نے رات راس آتی ہے
کہاں یہ صورتِ حالات راس آتی ہے

جو بات سُننے کا امکاں نظر نہیں آتا
ہمارے دل کو وہی بات راس آتی ہے

وہ جس سے اپنی ملاقات ہو نہیں سکتی
ہمیں اُسی سے ملاقات راس آتی ہے

جو اک جھلک سے یہ منظر بدل بھی سکتی ہے
وہ ایک جانِ کرامات راس آتی ہے

ترے جہانِ خرابی میں ، تیرے بندوں کو
بس ایک شامِ خرابات راس آتی ہے

میں جانتا ہوں ، خزاں فصلِ گل کا وقفہ ہے
مجھے بہار کی ہر بات راس آتی ہے

الم نصیب فضاؤں کے زرد موسم میں
بہت دنوں میں کوئی بات راس آتی ہے

وہ جو نوشتۂ دیوار پڑھ نہیں سکتے
اُنہی کو مرگِ مفاجات راس آتی ہے

جو صبحِ نو کے اُجالوں سے خوف کھاتے ہیں
اُنھیں فقط شبِ ظلمات راس آتی ہے

Related posts

Leave a Comment