تیس منٹ ۔۔۔ حامد یزدانی

تیس منٹ ۔۔۔۔۔۔ ’’لو بھئی، سن انیس سو پچاسی کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے آخرِ کارایک اور دن اپنی تمام تر بیزار کن مصروفیات کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جنگ کے دفتر تابشؔ سے ملاقات ہی تو آج کی آخری باقاعدہ مصروفیت تھی۔ سو، وہ بھی رات گیارہ بج کر بیس منٹ پر تمام ہوئی۔۔۔اور اب خیر سے گھر واپسی کا سفر۔۔۔لیکن آپ جناب یہاں کیسے۔۔۔؟‘‘ ’’مجھ سے ملنے؟ اور اِس وقت۔۔۔؟‘‘ ’’ارے نہیں، مجھے بُرا ہرگز نہیں لگا۔۔۔بس ذرا حیرانی ہوئی۔ دیکھیے، سامنے شملہ پہاڑی…

Read More

ماں جی ۔۔۔۔ قدرت اللہ شہاب

ماں جی ۔۔۔۔۔ ماں جی کی پیدائش کا صحیح سال معلوم نہ ہو سکا۔ جس زمانے میں لائل پور کا ضلع نیا نیا آباد ہو رہا تھا، پنجاب کے ہر قصبے سے غریب الحال لوگ زمین حاصل کرنے کے لئے اس نئی کالونی میں جوق در جوق کھنچے چلے آ رہے تھے۔ عرف عام میں لائل پور، جھنگ، سرگودھا وغیرہ کو ’’بار‘‘ کا علاقہ کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ماں جی کی عمر دس بارہ سال تھی۔ اس حساب سے ان کی پیدائش پچھلی صدی کے آخری دس پندرہ…

Read More

سزاوار ۔۔۔۔۔۔ ساجد ہدایت

سزاوار ۔۔۔۔۔۔ وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح بہت مقدس نظر آرہا تھا۔۔۔۔ چمکتے چہرے اور گہری اداس آنکھوں کے ساتھ ایک مکمل متاثرکرنے والی تصویر سا۔۔۔زاویوں میں منقسم اجلے راستوں کی طرح سا۔۔۔۔ اس نے بیٹھتے ہی سب پر ایک اچٹتی ہوئی نظرڈالی اور بغیرکوئی تمہید باندھے اپنی بات شروع کر دی!!! "جو ہاتھ اپنی ہی صلیب اٹھائے ہوئے ہوں۔۔۔۔ تو وہ کسی کا ہاتھ کیا تھامیں گے۔۔۔ جو آنکھیں اپنا پہلوٹھی کا خواب مرتا دیکھ لیتی ہیں، حیرت سے منجمد ہو کر بےخواب ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔خواب آنکھوں کے…

Read More

موت کے تعاقب میں ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرغافرشہزاد

موت کے تعاقب میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت دفتر میں تھا کہ جب اسے بیوی نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ اس کی دس ماہ کی بیٹی کی طبیعت خراب ہے، اور اسے رک رک کر سانس آ رہا ہے۔ یہ خبر اس کے لیے خلاف توقع نہ تھی۔ وہ صبح سے بار بار اپنے موبائل فون کی سکرین کی جانب دیکھتا تھا کہ جب وہ روشن ہو جاتی۔ دو تین ایس ایم ایس اس کے دوستوں کی جانب سے تھے جنھوں نے اسے دو دن بعد آنے والی عید…

Read More