سوا چار بج چکے تھے لیکن دھوپ میں وہی تمازت تھی جو دوپہر کو بارہ بجے کے قریب تھی۔ اس نے بالکنی میں آکر باہر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بظاہر دھوپ سے بچنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ اتنا سانولا کہ وہ درخت کی چھاؤں کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ سریندر نے جب اس کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی قربت چاہتا ہے، حالانکہ وہ…
Read MoreTag: Saadat hassan manto
سعادت حسن منٹو ۔۔۔ الو کا پٹھا
الو کا پٹھا قاسم صبح سات بجے لحاف سے نکلا اور غسل خانے کی طرف چلا۔ راستے میں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں، سونے والے کمرے میں، صحن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہے۔ بس صرف ایک بار غصے میں یا طنزیہ انداز میں کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہہ دے۔ قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہش…
Read Moreرضوان احمد ۔۔۔ منٹو کا ایک نادر مضمون
منٹو کا ایک نادر مضمون سعادت حسن منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے ’میں جانتا ہوں سعادت حسن ایک دن مر جائے گا۔ مگر منٹو کبھی نہیں مر سکتا۔‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعادت حسن 18جنوری 1955ءکو مر گیا اور اسے لاہو رمیں دفن کر دیا گیا۔ لیکن منٹو نہ اس تاریخ کو مرا تھا اور نہ آئندہ کبھی مرے گا۔ وہ مر بھی کیسے سکتا ہے اس کی تحریں آج بھی سماج کو اپنے مسائل کا احساس دلاتی ہیں، اس کے رو برو آئینہ رکھتی ہیں جس میں…
Read Moreمنٹو ۔۔۔ مجید امجد
منٹو ۔۔۔۔ مَیں نے اُس کو دیکھا ہے اُجلی اُجلی سڑکوں پر اِک گرد بھری حیرانی میں پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے : ” دنیا ! تیرا حُسن یہی بدصورتی ہے ۔ " دنیا اُس کو گھورتی ہے شورِ سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال بامِ زماں پر پھینکا ہے؟ کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پُر پیچ دھندلکوں…
Read More