تیس منٹ ۔۔۔ حامد یزدانی

تیس منٹ
۔۔۔۔۔۔

’’لو بھئی، سن انیس سو پچاسی کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے آخرِ کارایک اور دن اپنی تمام تر بیزار کن مصروفیات کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جنگ کے دفتر تابشؔ سے ملاقات ہی تو آج کی آخری باقاعدہ مصروفیت تھی۔ سو، وہ بھی رات گیارہ بج کر بیس منٹ پر تمام ہوئی۔۔۔اور اب خیر سے گھر واپسی کا سفر۔۔۔لیکن آپ جناب یہاں کیسے۔۔۔؟‘‘
’’مجھ سے ملنے؟ اور اِس وقت۔۔۔؟‘‘
’’ارے نہیں، مجھے بُرا ہرگز نہیں لگا۔۔۔بس ذرا حیرانی ہوئی۔ دیکھیے، سامنے شملہ پہاڑی کے پہلو میں الیکٹرونک گھڑی کیا وقت دکھا رہی ہے! گیارہ اکیس۔۔۔حالانکہ میری کلائی گھڑی پر ابھی گیارہ بج کر بیس منٹ اور تیس سیکنڈ ہوئے ہیں۔ تو پورے تیس سیکنڈ کا فرق ہے جناب دونوں گھڑیوں میں۔اگر وہ گھڑی ٹھیک ہے تو میں معیاری وقت سے تیس سیکنڈ پیچھے ہوں۔۔۔فاصلہ ۔۔۔ کیا کہیں گے اسے زمانی فاصلہ؟ مکانی تو ہو نہیں سکتا!‘‘
’’ ہاں، وقتی فاصلہ ۔۔۔! ۔۔۔ بہت اچھے! ‘‘
’’ذومعنی فاصلہ ! یہ بھی خوب ہے۔‘‘
’’ارے بھئی، اِس طرف آجائیے میرے بائیں ہاتھ۔ رات کو اس وقت کچھ لوگ بڑی غیر ذمہ داری سے ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ ویسے تو ڈیوس روڈ اور شملہ پہاڑی کے اس موڑ پر ویگن کا سٹاپ ہے مگر اِس وقت ویگن ملنا مشکل ہے۔‘‘
’’ہاں، ظاہر ہے، پیدل ہی چلنا پڑے گا۔۔۔اگر راستے میں کوئی ویگن آگئی تو اشارہ کر کے روک لیں گے۔ ویسے آپ نے ہی تو آج شام پیدل چلنے کا مشورہ دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس موسم میں واک کرنا کتنا اچھا لگتا ہے۔۔۔چلو، اب اس بہانے ایک قیمتی مشورے پر بھی عمل ہو جائے گا اور کچھ دیر من پسندساتھ بھی رہے گا۔‘‘
’’ہاں، دل تو چاہتا ہے کہ یہ ہم ۔ سفری دیر تک رہے، دور تک رہے۔۔۔ایک لامتناہی سفر۔۔۔!‘‘
’’اِدھرفُٹ پاتھ پر ہو جائیے۔۔۔گاڑی والا ہارن دے رہا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا ہوا، چپ کیوں سادھ لی؟ کچھ بات کیجیے ناں۔کب تک ہم ہی بولتے چلے جائیں دیوانوں کی طرح۔۔۔ ایک تو زبان کے سلسلے میں اپنی غیر مستقل مزاجی سے تنگ آگیا ہوں میں۔کبھی خود کو ’’ہم‘‘ کہہ جاتا ہوں اور کبھی ’’میں‘‘۔۔۔کیا بکواس ہے!‘‘
’’اچھا، ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔۔۔عدم احتیاط کہہ لیتے ہیں، غیر مستقل مزاجی نہیں کہتے۔ خوش؟۔۔۔لیکن یہ تو بتا ئیں آج دن میں جناب کی پریشانی کا اصل سبب کیا تھا؟ کیاواقعی طبیعت خراب تھی یا پھر۔۔۔!‘‘
’’نہیں غیر یقینی والی بات نہیں ہے۔ بس یہ سوچ رہا تھا طبیعت کی ذرا سی نا سازی کیا انسان کو اتنا اپ سیٹ کر سکتی ہے؟‘‘
’’اور وہ کیا بات تھی جو آج بھی ادھوری رہ گئی۔ طبیعت ہی کی بات تھی یا کچھ اور؟ کہیں میرا وہ اقرار تو بُرا نہیں لگ گیا کہ مجھے آپ کے ساتھ پھولوں کا تبادلہ اچھا لگتا ہے؟‘‘
’’نہیں! اچھا جی،اب وہ بات بھی نہیں تو اور بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ مجھے سوچنا پڑے گا!‘‘
’’ ہاں، ٹھیک کہا۔ ردیف ہو سکتی ہے غزل کی: مجھے سوچنا پڑے گا۔۔۔مجھے سوچنا پڑا ہے، مجھے سوچنا پڑے گا۔۔۔‘‘
’’ مصرع جس کا بھی ہے، آپ میری بات کا جواب گول کرنے کی کوشش نہ کریں۔ٹھیک ہے ابھی نہیں بتائی جا سکتی وہ بات۔۔۔تو کل سہی۔۔۔جب بھی۔۔۔‘‘
’’ارے نہیں، اسمبلی ہال کے باہر کھڑے  ان سپاہیوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ مجھ جیسے صحافی نما لوگوں کو کچھ نہیں کہتے۔۔۔آئیے، ادھر سمٹ مینار والی سائیڈ پر ہو جاتے ہیں۔ واپڈا ہاؤس کے ساتھ ساتھ تو فٹ پاتھ ہے نہیں۔‘‘
’’ہاں، ادھر سے۔ بس ٹھیک ہے۔۔۔‘‘
’’ نہیں، نہیں کچھ ایسا بہادر اور نڈر نہیں ہوں میں۔ پچھلے سال جب اخبار میں پہلی بار رات کی نوکری شروع کی تھی تب میں بھی ان پولیس والوں سے بہت ڈرتا تھا۔مگر اب نہیں۔ کئی بار تابش اور تقویم کے ساتھ رات گئے ادھر سے گزر چکا ہوں۔بس ہاتھ جیبوں میں اُڑسو او ر گنگناتے ہوئے اک شانِ بے نیازی سے چلتے جاؤ۔ کوئی کچھ نہیں کہتا۔‘‘
’’ آئیں اب ذرا اس چیرنگ کراس کو بھی عبور کر لیں۔‘‘
’’ہاں، بالکل یہی الفلاح والی روڈ ۔۔۔ اب اسی پر واک ہو گی چوک ریگل تک۔فیروز سنز اور کیتھے چائنیز والے فٹ پاتھ پر۔کم کم اور گوگو دونوں ریستوران پَرلی سائیڈ پر ہیں۔۔۔اور ہاں، یہ الفلاح والی ’’فلیش‘‘ دیکھ چکا ہوں میں۔۔۔بس سوتے جاگتے۔۔۔کیا کرتا بہت تھکا ہوا تھا۔۔۔دیکھیے ، اب اسی سائڈ پر واک ہو گی چوک ریگل تک۔فیروز سنز اور کیتھے چائنیز والے فٹ پاتھ پر ۔ گوگو اور کم کم دونوں ریستوران دوسری سائیڈ پر ہیں۔‘‘
’’ ہاں، بالکل، آؤ کم کم میں چائے پیتے ہیں، ہائیکو والا کم کم۔ٹھیک پہچانا :

ایک چھٹی بھی دردِ سر ٹھہری
سارار دن بوریت میں بیت گیا
آؤ کم کم میں چائے پیتے ہیں‘‘

’’اوہو، تو بوریت پر اعتراض ہے جناب کو‘‘۔
’’ جی، میں سمجھ گیا، سمجھ گیا ۔۔۔آپ کو میرے بور ہونے کے احساس سے زیادہ حرف سازی کے اصول وغیرہ مجروح ہونے کا دکھ ہے۔انگریزی کے ’بور‘ کے ساتھ’ یت‘ کی پیوند کاری آپ کو غیر فطری لگی۔ ٹھیک ہے کچھ بے زاری، بے کیفی، اکتاہٹ۔۔۔کچھ کر لیں گے۔ بس پہلے طارق سے اجازت لینا ہوگی کہ اس واردات میں اس کا بھی ہاتھ ہے‘‘۔
’’ ویسے ہائیکو آپ کو اچھا لگا۔۔۔شکریہ، شکریہ۔۔۔مگر سچ بتاؤں مجھے آپ کاا اداس اداس اور بجھا بجھا چہرا بالکل اچھا نہیں لگتا۔مانا کہ شاعروں کو حُسن کی اداسی بھی مسحور کن لگتی ہے لیکن میں آپ کو مسکراتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ شاید اس میں میری بھی کوئی غرض چھپی ہوئی ہے۔ شاید میں اپنی اداسی گم کردینا چاہتا ہوں آپ کی آنکھوں کی مسکان میں۔۔۔‘‘
’’آپ کو آنکھیں کیوں اچھی لگتی ہیں؟‘‘
’’نہیں بتانا کیا!؟ چلیں، ٹھیک ہے ۔۔۔ مگر یہ تو بتا دیں کیسی آنکھیں اچھی لگتی ہیں آپ کو؟ ہنستی مسکراتی یا اداس اداس، کھوئی کھوئی!!؟
’’لیجیے، یاد آیا جب امجدلاہور میں تھا تو ہم دونوں یہ نغمہ اکثر سُنا اور گنگنایا کرتے تھے:

جانے کیوں ہے آج کل کھوئی کھوئی زندگی

یا پھر وہی بارش والا گیت:

ساون کے جھولے پڑے تم چلے آؤ

بتایا تھا ناں امجدکی آواز بہت اچھی ہے۔ اس نے جرمنی کے برلن ریڈیو پر میری ایک غزل گائی بھی تھی اپنی آواز میں۔ کہتا تھا ایک ہزار پاکستانی روپے ملے تھے اسے معاوضہ کے طور پر۔ جن میں سے پانچ سو روپے پر اس نے میرا حق قرار دیا تھا۔۔۔‘‘
’’وہ غزل!۔۔۔ارے چھوڑیں کچھ ایسی خاص نہ تھی کہ اب سنائی جائے ۔۔۔ وہ تو جانے کیوں امجد کو بھا گئی ۔۔۔‘‘
’’ارے ارے۔۔۔ناراض مت ہو ں بھئی۔۔۔۔اب ایسا بُرا منہ بھی نہ بنائیں، پلیز ۔ رات ڈر جائے گی ۔۔۔‘‘
’’چلیں، مزاح برطرف ۔۔۔ دو شعر سنا دیتا ہوں، اسلم انصاری صاحب کی زمین ہے:

وہ ملا بھی نہیں، میں نے اسے دیکھا بھی نہیں
دل اسے بھول گیا ہو کبھی، ایسا بھی نہیں
جانے نکلا ہوں میں کیا ڈھونڈنے گھر سے، یارو!
سامنے میرے کوئی شہرِ تمنا بھی نہیں‘‘

’’اب یونہی فضول میں تعریف مت کیے جائیں۔ میں جانتا ہوںکس پائے کے ہیں یہ شعر! کہا ناں وہ تو امجدکی آواز تھی جس نے۔۔۔‘‘
’’اوہ، شکریہ یہ بتانے کا کہ ریگل چوک آگیاہے۔ اب اسے پار کرکے ادھر سامنے والی سڑک پر جانا ہے ہمیں، ٹیمپل روڈ پر ۔ یہ ریگل سینما نے کچھ عرصے سے پرانی فلمیں دکھانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ بھئی خوب ہے! چند ایک میں نے بھی دیکھی ہیں۔ اچھی لگیں۔‘‘
’’ہاں، آج کل ’’ مِس ہِپی‘‘ چل رہی ہے۔ ندیم اور شبنم کی۔پتہ نہیں کیسی ہے۔طارق سے پوچھوں گا۔ شاید اس نے دیکھی ہو۔ کیا یقین کریں گے، ایک زمانے میں افضل اور خالد صاحب کے ساتھ مل کر لاہور کے سینما ہالز میں لگی ساری کی ساری فلمیں ایک ہی رو میں دیکھ ڈالی تھیں۔۔۔وہ بھی کیا وقت تھا کہ وقت ختم ہی نہ ہوتا تھا۔۔۔۔۔!‘‘
’’کیا خیال ہے، فروٹ چاٹ کھائی جائے ریگل چوک کے اس مشہور بے نظیر چاٹ اوردہی بھلّے والے سے؟‘‘
’’یار، بہانے بنانا تو کوئی تم سے سیکھے۔گلا خراب ہے! کیا بہانہ ہے یہ؟ بتائیے ،یہاں کس کا گلا ٹھیک ہے بھلا!‘‘
’’اوہ، معذرت!۔۔۔’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کرنا چاہیے تھا، مجھے فوراً احساس ہو گیا تھا بس روانی میں زبان سے پِھسل گیا۔اب تو سوری ہی کہہ سکتا ہوں۔‘‘
’’کچھ تو بولیے۔۔۔کہ روزہ رکھ چھوڑا ہے آج چُپ کا؟۔۔۔ہم کو خاموشی مار ڈالے گی۔‘‘
’’مصرع؟‘‘
’’ہاں، مصرع نُما سا ہے۔۔۔ہم کو خاموشی مار ڈالے گی۔ "ی” اگرچہ گرتی ہے۔۔۔خالد صاحب کو پسند نہیں آئے گا۔‘‘
’’ہاں، ہاں۔۔۔کوئی مدہوشی مار جائے گی۔تیری سرگوشی مار جائے گی۔یا جفا کوشی مار جائے گی۔۔۔مصرع بازی تو رات کی طرح چلتی چلی جائے گی۔۔۔ اسے یہیں روک دیں۔یہ بتائیں آپ کا پسندیدہ اداکار کون ہے؟‘‘
’’نہیں، پاکستانی ہونا ضروری نہیں،بھارتی ہو، امریکی ہو۔۔۔کہیں کا بھی ہو۔۔۔‘‘
’’واااہ، فلم محبت اور وہ سات دن والا انیل۔۔۔ٹھیک ہے جناب۔ وہ سات دن میں تو نصیرالدین شاہ کی اداکاری بہتر نہ تھی؟‘‘
’’ہاں، پسند اپنی اپنی۔۔۔ویسے بھی نصیر انیل کی طرح خوب رُو تو نہیں ہے ۔۔۔ خوب رُویوں سے یاریاں نہ گئیں! ہے ناں!‘‘
’’کیا کہا؟ ٹائم؟ ٹائم ہوا ہے جناب۔۔۔اس وقت۔۔۔گیارہ بج کر انسٹھ منٹ اور چالیس سیکنڈ۔۔۔لیکن آپ۔۔۔‘‘
’’کس کو ٹَیم بتا رہا ہے صاب جی۔۔۔؟‘‘
شہباز خان چوکیدار کی مخصوص آواز مجھے چونکا دیتی ہے۔وہ حسبِ معمول گلی کی نکڑ پر دین محمد پان والے کے اونچے تھڑے پر لٹھ لیے بیٹھا مسکرا رہا ہے۔
’’کسی کو بھی نئیں، خان صاحب‘‘۔ کہتے ہوئے میں اپنے بائیں جانب دیکھتا ہوںاور اگست کی حبس زدہ تاریکی میں خوشبو کا ایک معطر سا جھونکا جیسے میرے پہلو سے مَس کرتا گزر جاتا ہے۔
اب مجھے دائیں طرف شہباز خان کا نیم تاریک چہرہ سجھائی دینے لگتا ہے۔
’’تو کیا تم خود سے بات کرتا تھا۔۔۔؟‘‘ وہ پوچھتا ہے۔
’’نہیں، نہیں خان صاحب۔‘‘ میں خود کو لمحۂ موجود کی طرف کھینچتے ہوئے ہڑبڑاتا ہوں۔’’دراصل۔۔۔وہ۔۔۔ میں ڈائیلاگ دوہرا رہا تھا ایک ڈرامے کے۔‘‘
’’کوئی نیا ڈرامہ لکھا ہے کیا؟ کون سا ڈرامہ؟‘‘
’’تیس منٹ کا فریبِ مکالمہ۔۔۔‘‘ میں جان چھڑانے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔
’’تیس منٹ کا پریبے مُوکالاما۔۔۔۔ بڑاعجیب وگرِیب نام ہے صاب۔‘‘
ہاں، جدید ڈراموں کے ایسے ہی نام ہوتے ہیں آج کل‘‘۔
اب یہ بھی مکالمہ ہے یا فریب ِ مکالمہ !
میں سوچتا ہوں اور شہباز خان کی طرف دیکھے بغیر جلدی سے گلی نمبر چالیس میں مڑ جاتا ہوں۔
اک خلا ہے کہ ہم۔قدم میرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱۸۔اگست ۱۹۸۵)

Related posts

Leave a Comment