انسان ۔۔۔ احمد ندیم قاسمی

انسان
۔۔۔۔۔

خدا عظیم، زمانہ عظیم، وقت عظیم
اگر حقیر ہے کوئی یہاں تو صرف ندیم

وہی ندیم، وہی لاڈلا بہشتوں کا
وہی ندیم، جو مسجود تھا فرشتوں کا

وہ جس نے جبر سے وجدان کو بلند کیا
وہ جس نے وسعتِ عالم کو اِک زقند کیا

وہ جس نے جرمِ محبت کی جب سزا پائی
تو کائنات کے صحراؤں میں بہار آئی

وہ جس نے فرش کو بھی عرش کا جمال دیا
وہ جس نے تند عناصر کو ہنس کے ٹال دیا

بڑھا تو راہیں تراشیں، رُکا تو قصر بنائے
اُڑا تو گیت بکھیرے، جھکا تو پھول کھلائے

وہ جس کے نام سے عظمت قسم اٹھاتی ہے
اُسی کی آج خدائی ہنسی اُڑاتی ہے

نہیں، کسی سے بگڑنا مرا سبھاؤ نہیں
مری سرشت میں گلزار ہیں، الاؤ نہیں

ہزار بار شکستوں پہ مسکرایا ہوں
مصیبتوں کی گرج میں بھی گنگنایا ہوں

اگر حریمِ بقا سے فنا ملی ہے مجھے
اسی فنا میں بقا کی ادا ملی ہے مجھے

خدا شناس بھی ہوں اور خود شناس بھی ہوں
خدا سے دور بھی ہوں اور خدا کے پاس بھی ہوں

یہاں زمیں پہ بھی تخلیق کام ہے میرا
کہ کبریائی سے منسوب نام ہے میرا

زمیں مری ہے، فضا بھی مری، خلا بھی مری
خلا مری ہے تواقلیمِ ماورا بھی مری

خدا کے ذہن کا فن پارۂ عظیم ہوں مَیں
تمام دہر کا دولھا ہوں مَیں، ندیم ہوں مَیں

Related posts

Leave a Comment