ماتم بال و پَر کا … رشید امجد

بات یوں چلی کہ نام اور پہچان کا تعلق جسم سے ہے یا اس بے نام شے سے جو جسم کو وجود بناتی ہے۔ جس کے بغیر جسم بے حِس و حرکت مٹی کا ایک ڈھیر ہے، جسے یا تو کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں یا خاک کے ساتھ خاک ہوجاتا ہے۔ مٹی ریتیلی ہو تو خاک ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگتا، چکنی ہو تو دیر لگتی ہے۔ لیکن کیڑے تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور انھیں بھوک بھی لگتی ہے تو پھر نام او رپہچان کا تعلق کس سے ہے۔ بے نام سی شے جو جسم کو وجودبناتی ہے کوئی نام اور پہچان نہیں رکھتی۔”نام تو رکھے جاتے ہیں او رپہچان آدمی خود بناتا ہے۔“ اُس نے سوال کیا….”لیکن یہ میرے پاﺅں تلے آس پاس کتنے ہی کیڑے مکوڑے ہیں جن کا کوئی نام نہیں۔“
”نام ہے کیا؟“ مرشد بولا…. ”نام تو ہم پرندوں اور جانوروں کے بھی رکھ لیتے ہیں اور وہ اپنے نام کو پہچانتے بھی ہیں۔“
”تو پھر میرے نام اور کسی پرندے کے نام میں کیا فرق ہے؟“ وہ بڑبڑایا۔
تادیر خاموشی رہی، پھر بولا….” اس عظیم کائنات میں یہ زمین ایک ذرّے کی طرح ہے اور اس ذرّے پر میں ایک چیونٹی سا، پھر میرا نام ہوا بھی تو کیا، نہ ہوا تو کیا۔“
مرشد چُپ رہا، وہ کہنے لگا….”اس روز جو بہرحال آنا ہے، میں کِس نام سے پکارا جاﺅں گا…. اِسی نام سے جو مجھ سے پوچھے بغیر رکھ دیا گیا تھا۔“ مرشد ہنسا….”تم اپنا نام بدل سکتے ہو؟“
”لیکن پہچان تو نہیں بدل سکتا“ وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا….”میرامخمصہ تو یہ ہے کہ میرا یہ نام اور پہچان میرے جسم کا ہے یا اس بے نام شے کا جو میرے جسم کو کسی دن اچانک چھوڑ جائے گی۔“
خیال آیا کہ جسم تو ٹھنڈا برف ہوجائے گا۔ اُسے آس پاس ہونے والی پکار بھی سنائی نہیں دے گی، یا ممکن ہے سنائی دے۔ یہ تجربہ تو ایک ہی بار ہوسکتا ہے اور اُسے کسی کو بتایا نہیں جاسکتا، اس کے بعد نام کاغذوں اور پہچان یادوںمیں باقی رہ جاتی ہے۔
اُس نے پڑھا….”فلاں نام کا ایک بڑا شخص تھا، یا چھوٹا شخص تھا، اُس نے لکھا ….“یہ لکھا بھی ہمیشہ زندہ نہیں رہتا۔ وقت کی دُھول اس کے حروف دُھندلادیتی ہے، پھر زمانوں بعد کوئی متلاشی انھیں تلاش کرتا ہے، کبھی نام مل جاتا ہے کبھی یہ حروف گمنام ہی رہتے ہیں۔”تو نام کیا ہے، یہ پہچان کیا ہے؟“ اُس نے پوچھا۔
”اپنے زمانے کے ساتھ جڑے ہونے کا احساس“ مرشد بولا….”اپنے زمانے سے نکل جانے کے بعد ہر شے دُھندلاجاتی ہے اور دھندلاتے دھندلاتے فنا ہوجاتی ہے۔“
”تو دوام فنا کو ہوا۔“ وہ بڑبڑایا۔
مرشد نے اثبات میں سر ہلایا۔
”جب ہر شے کا انجام فنا ہے تو پھر نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ پہچان کے کیا معنی ہیں؟“
”بس یہ ایک سلسلہ ہے جو خود بے نام ہے۔“
وہ پھر کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پچھلے کئی دنوں سے اسے احساس ہورہا تھا کہ عمر کے اس حصّے میں جب صبح ناشتہ کرکے سارا دن صوفے پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے یا ٹی وی دیکھنے یا گھنٹی بجنے پر دروازہ پر جا کر یہ دیکھنے کہ کون آیا ہے، اس کا کوئی کام نہیں تو اسے اپنے نام کے ساتھ ساتھ پہچان کی بے معنویت کا احساس بھی ہونے لگا۔
”یہ میرا وجود“ وہ اپنے آپ پر نظر ڈالتا، اس کا کَسا ہوا جسم ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ ہاتھوں اور چہرے پر جھرّیاں نمایاں ہونے لگی تھیں۔ ٹانگوں میں کپکپاہٹ آگئی تھی…. روز صبح کی سیر تو اب خواب ہوگئی تھی، اور یہ بے نام سی شے جس نے میرے اس بوڑھے ہوتے جسم کو، ابھی تک وجود بنایا ہوا، کسی دن پُھر سے اُڑ جائے گی ، پھر یہ نام اور پہچان میرے لیے نہیں دوسروں کے لیے رہ جائیں گے…. کاغذوں میں، یادوں میں…. اور میں، میں کہاں ہوں گا، مٹی میں مٹی ہوتا ہوا، اس وقت تک اذیت سہتا جب تک کیڑے اور مٹی جسم کے آخری حصّے کو بھی چاٹ نہ جائیں۔
اخبارپڑھتے پڑھتے چیونٹی نے پاﺅں میں کاٹ لیا۔ اُس نے بلبلا کر، اسے مَسل دیا۔
بیوی نے جو پاس بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھی، پوچھا…. ”کیا ہوا؟“
”چیونٹی نے کاٹ لیا۔“
وہ ہنسی…. ”اُس نے سوچا ہوگا بندہ تو اپنی جگہ سے ہلتا ہی نہیں، ذرا اسے ہلاﺅں تو سہی۔“
پھر بولی…. ”بندے خدا کے ،کم از کم جگہ ہی بدل لیا کرو، مجھے تو لگتا ہے تم اسی صوفے پر بیٹھے بیٹھے مجسمہ بن جاﺅ گے۔
مجسمہ بن جانے کا خیال اسے اچھا لگا لیکن پھر فوراً ہی سوچا….”مجسمے بھی فنا تو ہوجاتے ہیں، زمانہ انہیں بھی ریت بنا دیتا ہے“
”تو بالآخر مٹی مٹی میں اورریت ریت میں ملتی ہے اور پھر مٹی اور ریت ایک ہوجاتے ہیں“ اُس نے مرشد سے سوال کیا۔
”مٹی بھی مٹی نہیں رہے گی۔“ مرشد بولا…. ”اُس روز جس نے آنا ہے یہ بھی ذرّہ ذرّہ ہو کر اس عظیم خلاءمیں بکھر جائے گی۔“
”پھر….“ اس نے استفسار سے مرشد کی طرف دیکھا۔
”پھر شاید“ مرشد نے سوچتے ہوئے کہا….”پھر شاید یہ ذرّے مل کر ایک غبار بنیں گے اور زمانوں بعد یہ غبار زمین میں تبدیل ہوگا اور پھر….؟“
”پھر شاید ہم ہی یا ہم جیسے….“ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا، کچھ دیر سوچتا رہا، پھر بولا….”نام بھی شاید یہی ہوں لیکن پہچان…. اصل بات تو پہچان اور پہچان کے احساس کی ہے۔“
مرشد چُپ رہا۔
”تو میرا یہ نام اسی جسم کا ہے جومیرا ہے،“ اُس نے سوچا….’اور جب یہ جسم نہیں ہوگا تو نام کے کیا معنی، یہ نام پھر میرے لیے نہیں مجھے یاد رکھنے کے لیے ہوگا۔ لیکن کتنا عرصہ“
اُس پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی۔ دونوں مٹھیاں بھینچتے ہوئے تقریباً چیخ کر بولا….”آخر کتنا عرصہ یہ نام زندہ رہے گا، میرے بعد کی ایک نسل یا بہت ہوا تو اس کے بعد کی ایک نسل، اس کے بعد اس نام کے کیا معنی ہوں گے۔“
مرشد ہنسا….”یہ نام کسی اور کا ہوگا، کئیوں کا ہوگا، نام تو چلتے ہی رہتے ہیں۔“
’لیکن ایک وقت آتا ہے“ وہ بڑبڑایا….”جب نام پرانے ہوجاتے ہیں اور نئے ناموں کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔“
”تادیر چپ رہنے کے بعد بولا….”ایک نام کے کئی لوگ ہوتے ہیں تو نام بھی اصل شے نہیں، پہچان اصل ہے جو اپنی اپنی ہے۔“
”لیکن یہ پہچان بھی جسم کی ہے، بے نام شے کی نہیں جو جسم کو وجود بناتی ہے۔“ مرشد نے آہستگی سے کہا….”جو اصل شے ہے اس کا کوئی نام نہیں؟“
”اور پہچان؟“ اُس نے پوچھا۔
مرشد چپ رہا۔
اُسی رات عجب ہوا، معلوم نہیں یہ خواب تھا یا حقیقت۔ اُس نے دیکھا، منوں مٹی کے نیچے گھپ اندھیرے میں جب کیڑے اس کے اردگرد منڈلارہے تھے، شمع ہاتھ میں اٹھائے وہ اس کے پاس آئے اور پوچھا….”تمھارا نام کیا ہے؟“
اُس نے کہا….”کوئی نہیں۔“
”پہچان؟“
”کوئی نہیں“
انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر پوچھا….”کہاں جانا چاہتے ہو؟“
”جہاں پر میری کوئی شناخت نہ ہو، کوئی نام نہ ہو، کوئی پہچان نہ ہو۔“
انھوں نے اسے اٹھا کر ایک اندھیرے سوراخ میں ڈال دیا، سرنگ نما اس اندھیرے گھپ میں وہ لڑکھڑاتا ہوا نیچے گرتا چلا گیا…. گرتا چلا گیا، اور پھر دھڑام سے اپنے بستر پر آن گرا۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ بیوی گہری نیند سورہی تھی۔
”نام اور پہچان تو دوسروں کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ بڑبڑایا”میرا ہونا تو اس بے نام سی شے کی وجہ سے ہے جو کسی وقت بھی پُھر سے اُڑ جائے گی“ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

Related posts

Leave a Comment