رانا سعید دوشی ۔۔۔ اہتمام

اہتمام ۔۔۔۔۔ جمالے! او جمالے! وہ بھوری بھینس جس نے مولوی کو سینگ مارا تھا گلی سے کھول کر ڈیرے پہ لے جا شکورے! بھینس کی کھُرلی کو رستے سے ہٹا دے پھاوڑے سے سارا گوھیا میل کے کھیتوں میں لے جا نذیراں! جا  ذرا ویہڑے میں بھی جھاڑو لگا دے سُن! یہ ساری چھانگ بیری کی اُٹھا لے جا جلا لینا، غلامے یار! یہ ۔۔۔ کیکر کے کنڈے ۔۔۔۔ چھوڑ ۔۔۔ میں خود ہی اُٹھا لوں گا تُو ایسا کر ۔۔۔ حویلی میں جو ”موتی“ اور ”ڈبُّو“ پھر رہے…

Read More

رانا سعید دوشی ۔۔۔ کر نہ بیٹھوں نئی خطا میں بھی

کر نہ بیٹھوں نئی خطا میں بھی عشق میں ہوں نیا نیا میں بھی بخشوا لوں کہا سنا میں بھی ہونے والا ہوں دشت کا میں بھی وہ کھڑا تھا کواڑ کے پیچھے اس پہ پورا نہیں کھلا میں بھی عشق دونوں ہی کر نہیں پائے پارسا تو بھی پارسا میں بھی اے ہوس! تو بھی کیا طوائف ہے تیری باتوں میں آ گیا میں بھی کون سکتے میں بول سکتا ہے بول سکتا تو بولتا میں بھی ساری دنیا تو ساری دنیا ہے ساری دنیا ۔۔۔ مراد کیا۔۔۔ میں…

Read More

رانا سعید دوشی ۔۔۔ تتلیوں کو سویرے میں رکھا گیا

تتلیوں کو سویرے میں رکھا گیا جگنوؤں کو اندھیرے میں رکھا گیا تین کلموں میں اس کو میں کیا باندھتا جس کو اگنی کے پھیرے میں رکھا گیا سب میں رکھی گئی ملکیت کی ہوس اک جہاں میرے تیرے میں رکھا گیا سوئے کیا خواب میں بھاگتے ہی رہے کیسا چکر بسیرے میں رکھا گیا اس کا قیدی نہ تھا یرغمالی تھا مَیں مجھ کو میرے ہی ڈیرے میں رکھا گیا

Read More

رانا سعید دوشی ۔۔۔ میں نے بخشے ہیں ترے نام کو بھی خال و خد

مَیں نے بخشے ہیں ترے نام کو بھی خال و خد مَیں کہیں زیر زبر ہوں تو کہیں پیش و شد مَیں جسے سجدہ کروں بھاگ جگا دیتا ہوں مجھ سے پاتے ہیں سبھی سنگ خدائی کی سند ہندسے سارے ترے صفر فقط میرا تھا ضرب کھاتے ہی ہوئے صفر ترے سارے عدد تجھ سے بونے تو مرے ٹخنوں تلک آتے ہیں کون سے منہ سے چلا ناپنے تو میرا قد حد سے بڑھنا نہیں اچھا مجھے تسلیم، مگر تو مجھے یہ تو بتا پیار کی بھی ہے کوئی حد…

Read More