رانا سعید دوشی ۔۔۔ اہتمام

اہتمام
۔۔۔۔۔
جمالے!
او جمالے!
وہ بھوری بھینس
جس نے مولوی کو سینگ مارا تھا
گلی سے کھول کر ڈیرے پہ لے جا

شکورے!
بھینس کی کھُرلی کو رستے سے ہٹا دے
پھاوڑے سے سارا گوھیا میل کے
کھیتوں میں لے جا

نذیراں! جا  ذرا
ویہڑے میں بھی جھاڑو لگا دے
سُن!
یہ ساری چھانگ بیری کی اُٹھا لے جا
جلا لینا،

غلامے یار!
یہ ۔۔۔ کیکر کے کنڈے ۔۔۔۔
چھوڑ ۔۔۔ میں خود ہی اُٹھا لوں گا
تُو ایسا کر ۔۔۔
حویلی میں جو ”موتی“ اور ”ڈبُّو“ پھر رہے ہیں
ان کو سنگلی ڈال
بلکہ ۔۔۔میں تو کہتا ہوں
انہیں ڈیرے پہ ہی لے جا
یہ گھر میں ہوں تو
رحمت کے فرشتے ہی نہیں آتے

چنے کا ساگ اُس نے
اپنے ہاتھوں سے پکایا ہے
نجانے کب
وہ سلور کی کٹوری لے کے آجائے

Related posts

Leave a Comment