رانا سعید دوشی ۔۔۔ اہتمام

اہتمام ۔۔۔۔۔ جمالے! او جمالے! وہ بھوری بھینس جس نے مولوی کو سینگ مارا تھا گلی سے کھول کر ڈیرے پہ لے جا شکورے! بھینس کی کھُرلی کو رستے سے ہٹا دے پھاوڑے سے سارا گوھیا میل کے کھیتوں میں لے جا نذیراں! جا  ذرا ویہڑے میں بھی جھاڑو لگا دے سُن! یہ ساری چھانگ بیری کی اُٹھا لے جا جلا لینا، غلامے یار! یہ ۔۔۔ کیکر کے کنڈے ۔۔۔۔ چھوڑ ۔۔۔ میں خود ہی اُٹھا لوں گا تُو ایسا کر ۔۔۔ حویلی میں جو ”موتی“ اور ”ڈبُّو“ پھر رہے…

Read More

رانا سعید دوشی ۔۔۔ تتلیوں کو سویرے میں رکھا گیا

تتلیوں کو سویرے میں رکھا گیا جگنوؤں کو اندھیرے میں رکھا گیا تین کلموں میں اس کو میں کیا باندھتا جس کو اگنی کے پھیرے میں رکھا گیا سب میں رکھی گئی ملکیت کی ہوس اک جہاں میرے تیرے میں رکھا گیا سوئے کیا خواب میں بھاگتے ہی رہے کیسا چکر بسیرے میں رکھا گیا اس کا قیدی نہ تھا یرغمالی تھا مَیں مجھ کو میرے ہی ڈیرے میں رکھا گیا

Read More