خاور اعجاز ۔۔۔ کچھ دیر ٹھہر

کچھ دیر ٹھہر
۔۔۔۔۔
زمانے!
گلی میں صدا تُو نے دی ہے
تو بستی میں کہرام سا مچ گیا ہے
شبِ تار میں جگنوؤں کی قطاریں
اندھیرے کی دیوار میں
دَر بنانے کی کوشش میں ہیں
تیرگی منہ چھپاتی ہُوئی پھِر رہی ہے
کئی روز سے رات ٹھہری ہُوئی تھی
مگر تُو نے آواز دی
تو یہ منظر بدلنے لگا ہے
مِرا قافلہ پھِر  سے چلنے لگا ہے
مگر
ٹمٹماتے ہُوئے  جگنوؤں کی قطاروں سے
سورج اُبھرنے میں کچھ دیر ہے
میری مٹی سنورنے میں کچھ دیر ہے
بیٹھ جا دل گلی میں گھڑی دو گھڑی
باندھ لُوں مَیں جو رختِ سفر پاس ہے
راستے میں کھڑی شام سے مِل تو لُوں
مَیں سرِ شاخِ دنیا ابھی کھِل تو لُوں

Related posts

Leave a Comment