حامد یزدانی ۔۔۔ مرغولے

مرغولے
۔۔۔۔۔۔۔۔

’’جو نفی ٔذات کی سیڑھیاں چڑھتا ہے وہی قُربِ الہٰی کی منزل پاتا ہے۔ رب کہتا ہےکہ تقویٰ اختیارکرو تو مطلب یہ کہ اس سے ڈرو۔۔۔‘‘
’’عنوان !‘‘۔۔۔’’عنوان۔۔۔؟‘‘
’’عنوان۔۔۔تو بتا دیجیے پہلے، جناب۔‘‘ سرگوشی نے اسے چونکا دیا۔
’’اوہ، جی،جی۔معاف کیجیے گا، میں بھول گیا۔میرے افسانے کا عنوان ہے ’ڈر‘۔‘‘ نوآموز افسانہ نگارنے یہ کہتے ہوئے ایک جھکی جھکی نظر حاضرین پر ڈالی۔ اپنے استخوانی لرزیدہ ہاتھ سے سفیدکاٹن کے تریزوں والے کُرتے کی دائیں جیب میں سے چُڑمُڑا سا نیلا رومال نکالا اور ماتھے پر ابھرتے پسینے کے قطرے پونچھنے لگا۔جلد گھبرا جانا ویسے بھی اس کی عادت تھی۔’’ینگ رائٹرز‘‘ اور ’’بزمِ قلم‘‘ کے اجلاسوں کے دوران میں بھی، جہاں اکثر اس کے ہم۔عمر نئے لکھاری شریک ہوتے تھے، وہ اپنا نثر پارہ سناتے ہوئے ہیجان زدہ سا ہو جاتا تھا۔
سچی بات یہ ہے کہ کافی ہاؤس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے اس دن بھی ایک بار یہ خیال ضرور آیا تھاکہ وہیں سے پلٹ جائے مگر اپنے صحافی دوست جاویدسلطان سے کیا وعدہ اسے اوپر دھکیلتا رہا۔ جاویدنے اجلاس میں شمولیت کے لیے شہر کی سب سے اہم ادبی انجمن’’اربابِ سخن‘‘ کے سیکرٹری سے اس کی سفارش کی تھی اور صدرِ اجلاس معروف عابدکے ادبی رجحانات وترجیحات کاحوالہ دیتے ہوئے اسے انشائیے کے بجائے افسانہ پیش کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ سب سوچ کر کچھ مضطرب وہ پہلے ہی سے تھا اور اس پر اب جائنٹ سیکرٹری کی سرگوشی نے اسے پوری طرح بوکھلا کر رکھ دیاتھا۔ ایک لحظہ کو تو اسے ایسا لگا جیسے وہ کافی ہاؤس کے بالائی کمرے میں کرسی پر نہ بیٹھاہو بلکہ شور اور دھوئیں سے اَٹے چیرنگ کراس کے بیچوں بیچ پڑا ہو۔۔۔ایک پَربریدہ جنگلی کبوترکی طرح ۔۔۔ اور تیزرفتار گاڑیاں چاروں اور سے دوڑی چلی آ رہی ہوں۔ اسے لگا کہ ڈَر نے اس کے حواس کو برف کردیا ہے۔

’’ڈر۔۔۔! خوب ۔۔۔ تو سنائیے جناب!‘‘ صدرِ اجلاس کی آوازنے اُسے چیرنگ کراس کے حادثے سے بچالیا تھا اوروہ لائنوں والے چند لمبے اوراق کواحتیاط سے تھامے جھجکتے انداز میں پڑھنے لگا تھاآہستہ آہستہ ۔۔۔برف کچھ پگھلی تھی۔بدن سے چپکے پر تو کُھل رہے تھے مگر اڑان کا راستہ نہ مل رہا تھا۔ سو وہ رینگنے لگا۔
’’جو نفی ٔذات کی سیڑھیاں چڑھتا ہے وہی قُربِ الہٰی کی منزل پاتا ہے۔ رب کہتا ہے کہ تقویٰ اختیارکرو تو مطلب یہ کہ اس سے ڈرو، پرہیزگاربنو۔ ڈرنے والا ہی متقی کہلاتا ہے اور۔۔۔‘‘
’ مگر اللہ سے کیسا ڈرنا، سرکار۔ وہ تو رحیم و کریم ہے۔ ستّر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا‘۔ فضل دین نے ،جوسیمنٹ کے پختہ مگر ٹھنڈے فرش پرسب سے اگلی قطار میں دوزانو بیٹھا تھا، جانے کیسے آج اس منقش اور دبیز ایرانی قالین میں دھنسے تخت پوش پر رونق افروزبڑے سرکار کی بات کاٹنے کی جرات کرلی تھی ۔بڑے سرکار کی بے داغ پگڑی کی سلوٹوں میں بھی جن خوش عقیدہ مریدوں کو ان کی کشادہ پیشانی جیسی ہی نورانی کرنیں پھوٹتی دکھائی دیتی تھیں وہ سب اس کی طرف دیکھنے لگے تھے۔اگر بتی کاخوشبودار دھواں فضا میں بلند ہوتا اور پھر نحیف سے مرغولے بناتا ہوا دھیرے دھیرے ہوا میں تحلیل ہوجاتا۔ اپنی اس بے اختیارانہ جرات پر دراصل فضل دین خود بھی پشیمان بلکہ حیران تھا۔ اُس نے معافی مانگنے کے لیے فوراً شہادت والی اور درمیانی انگلیوں سے کانوں کی لووں کو پکڑلیا تھا۔ پشیمانی سے اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔‘‘

اُس نے رومال سے اپنا ماتھا پونچھا جو پسینے سے چمک رہا تھا۔نو آموز افسانہ نگار کواس وقت اپنے گلے میں کانٹے سے چبھتے محسوس ہورہے تھے۔ اس نے تھوک نگلا اور بائیں طرف گردن موڑ کر صدرِ اجلاس کو دیکھا جو دو والے صوفے پراپنی دونوں ٹانگوں سے ضرب کا نشان بنائے، آنکھیں موندے، انگلیوں میں دبے سگریٹ سے فضا میں دھوئیں کے مرغولے بکھیر رہا تھا۔ سرخ فاؤنٹین پین سے مفرور ایک قطرے نے اس کی ہلکی نیلی شرٹ کی جیب پر گہرا نیلا دائرہ سا نقش کردیا تھا۔ ایک ننھا سا نیلا دھبہ۔اجلاس سے پرے کھڑکی کی سرحد پر نیلگوں شام ڈیرے ڈال چکی تھی۔
’’۔۔۔یوں تو اس پیر خانے پرمحفل شام کو ہوتی تھی مگر جمعہ کے روز اس کے لئے صبح کا وقت مقرر کیا گیا تھا تاکہ لوگ نمازِ جمعہ کے لیے جانے سے پہلے پہلے بڑے سرکار کی زیارت بھی کرلیں اور اپنے اپنے مسائل کے حل اور دعائیں بھی سمیٹ لیں۔‘‘ سرسری سی نگاہ حاضرین پر ڈالتے ہوئے نوآموز افسانہ نگار پھر پڑھنے لگا:
’’اس روز بھی جمعہ تھا اور محفل پیرخانے کے بڑے کمرے میں ہورہی تھی جس کا ایک دروازہ گھر کے اندر کھلتا تھا اور دوسرا باہر گلی میں جس کے عین سامنے مسجد سے ملحق حضرت میاں جی سرکار کا مزار تھا جو بڑے سرکار کے والد اور اپنے دور کی جانی پہچانی روحانی ہستی تھے۔بڑے سرکار خفا ہونے کے بجائے نرمی سے کہہ رہے تھے:
’دیکھو، فضل دین تم بات سمجھے نہیں۔ میں سمجھاتا ہوں تمہیں۔ اچھا یہ بتاؤ تم نے کبھی دن میں خوب صورت لہلہاتے پیڑوں کی سرسبز وادیاں دیکھی ہیں؟ ان حسین و جمیل بے انت نظاروں کوکبھی شام ڈھلنے کے بعد دیکھا ہے؟جب قدرت کا حسن دہشت ناک ہوجاتا ہے۔ میں نے دیکھے ہیں یہ نظارے۔ جمال کے جلال سے ڈرنا چاہیے فضل دین۔اور بڑوں کے آگے خاموش رہنے ہی میں عافیت ہے۔‘‘

’’بس خاموش رہنا افسانہ پیش کردینے کے بعد ۔ یہی یہاں کی رِیت ہے۔ بس غورسے نقادوں کی باتیں سننا۔ٹھیک ہے؟۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ ایسے ہی تعارف کے، آگے بڑھنے کے راستے ملتے ہیں۔‘‘اس کے صحافی دوست جاوید نے اجلاس سے پہلے اسے تاکیداً کہا تھا۔

’’ ’حق فرمایا آپ نے۔ اک چپ، سو سکھ۔اور پھر اُس بے پرواہ سے تو ڈرتے ہی رہنا چاہئے۔‘ پیازی رنگ کے دھوتی کرتے میں ملبوس خلیفہ مہر دین نے جھومتے ہوئے کہا تھا۔مہر دین جولاہا تھا۔اس کے بڑوں کا پیشہ کب اس کی ذات بن گیا تھا یہ اس کے بڑوں کو بھی یاد نہ تھا۔ ہاں جب میاں جی سرکار نے اپنی زندگی میں اسے بتایاتھا کہ اس کے بزرگ انصاری تھے اور عرب شریف سے آئے تھے اور یہ کہ مدینہ کے مہمان نواز اور خدمت گزار انصاریوں کا خون دوڑ رہا ہے اُس کی رگوں میں۔ بس اسی دن سے اس کے پورے خاندان نے خود کو پیر صاحب کے گھرانے کی خدمت پر مامور کر لیا تھا۔
’ مہر دین پانی تو پلاؤ‘ بڑے سرکا رپہلے ہمیشہ اسے ہی خدمت کا موقع دیتے۔دوسرے سب مرید اس کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے اسے تکنے لگے۔خلیفہ مہر دین نے سامنے میز پر دھرے جگ میں سے پانی شیشے کے نازک سے گلاس میں انڈیلا ۔ گلاس کا پیندا بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر ٹکایا اور دائیں ہاتھ سے بہت ادب کے ساتھ بڑے سرکار کو پیش کیا۔‘‘

پانی سے بھرا گلاس ابھی اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔نوآموز افسانہ نگار کو اپنا گلا خشک ہوتا محسوس ہونے لگا تھاسو اس نے ہاتھ سے ورق سامنے میز پر رکھ کر صدرِ اجلاس کے آگے پڑے جگ میں سے خود ہی پانی گلاس میں انڈیل لیا تھا۔ایسا کرتے ہوئے اس نے صدرِ اجلاس کے ساتھ بیٹھے جائنٹ سیکرٹری کو دیکھا جوگردن جھکائے گلابی جلد والے رجسٹر میں کچھ لکھ رہا تھا۔ بیس بائیس برس کا جوان، باریک مونچھیں، سائیڈ سے مانگ نکالے سیاہ بال۔لمبی قلمیں۔وہ پانی گھونٹ گھونٹ گلے میں اتارنے لگا۔ اُدھر سیکرٹری اپنی توند لٹکائے پلاسٹک کا ایک سفید ڈبہ ہاتھ میں لیے آخری قطار کے حاضرین سے چائے کے لیے فنڈ طلب کررہاتھا۔ کسی نے اس ڈبے میں کوئی سکّہ ڈال دیا اور کسی نے محض اپنی شرمندگی اچھال دی اور وہ ڈبہ چھنکاتا ہوا اس سے اگلی قطارکی طرف بڑھ آیا تھا۔ دائیں طرف لمبے صوفے پر چار نے قبضہ جما رکھا تھا۔ دو ادھیڑ عمر کے مرد، ایک ان سے قدرے کم عمر گہری سانولی عورت اور ایک اس کا چتکبرا کندھے کا تھیلہ۔عورت کے چہرے سے اکتاہٹ جبکہ دونوں مرد وں کے ہونٹوں سے مسکراہٹ چھلک رہی تھی۔ دوسری قطار میں ایک فربہ شخص کوئی کتاب پڑھنے میں مشغول تھا۔ نوآموز افسانہ نگار نے پانی پی کر خالی گلاس میز پر رکھا تو اسے احساس ہوا کہ اس کا دایاں ہاتھ گیلاہوگیا ہے۔ اس نے کرتے کی جیب سے وہی نیلا رومال نکالا۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر ہاتھ کو اپنے کرتے کے دامن ہی سے پونچھ لیا اور رومال واپس جیب میں رکھ لیا۔صدرِ اجلاس صوفے سے ٹیک لگائے، کچھ کچھ آنکھیں موندے سگریٹ کا ایک لمبا سا کش کھینچ کر دھوئیں کے مرغولوں کو فضا میں بکھرتا دیکھ رہا تھا جیسے وہ ان میں کچھ تلاش کررہا ہو۔اس کی جیب پرنقش نیلا دھبہ کچھ بڑا ہو گیاتھا۔اس کا دایاں پاؤں مسلسل حرکت کررہاتھا جبکہ بائیں پاؤں کے انگوٹھے پر پٹی بندھی تھی۔ انگوٹھے والی گھِسی گھِسی بھوری چپل بھلازخم کیسے چھپا سکتی تھی!

’’ ’مالک سے کچھ چھپا نہیں، یاد رکھو یہ بات۔۔۔‘بڑے سرکار کہہ رہے تھے۔‘‘ اس نے اپنا افسانہ آگے بڑھایا تھا۔’وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ جب تم دل میں اس کا، صرف اس کا ڈر بٹھا لیتے ہو تو پھر کسی اور خوف کی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ ایک کی غلامی کتنوں کی چاکری سے بچا لیتی ہے۔وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔سنا ہوا ہے نا یہ شعر؟ ہاں۔بس یہ بات ہے۔ ایک اُس سے ڈرو تو بیماری ، بھوک،بے اولادی اورحتی  ٰ کہ موت کا خوف بھی، سب بھاگ جاتے ہیں بندے سے دور۔ بہت دور۔‘‘ اگر بتی کا خوشبو دار دھواںمسلسل پھیل رہا تھا۔ اتنے میں بڑے سرکار کا نوعمر صاحب زادہ کمرے میں داخل ہوا۔ سب اس کے استقبال کو کسمسائے تو صاحب زادے نے خود ہی سب کو منع کردیا کیونکہ اس کے نزدیک ایسا کرنے سے بڑے سرکار کی بے ادبی ہو جاتی۔اس نے بڑے سرکار سے کچھ دیر کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت طلب کی۔ جواباً اسے قریب ہی بیٹھنے کا اشارہ کیاگیا۔ وہ بیٹھ گیا تو بڑے سرکار پھر گویا ہوئے: ’سمجھ آئی نا بات! یاد رکھنا اسے اب ۔۔۔ یاد رکھنا اسے اب ! ۔۔۔اذان۔۔۔۔ اذان مکمل ہوئی ۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا ئے تو مریدوں نے بھی ۔۔۔مریدوں نے بھی ہاتھ۔۔۔‘‘
ُ
اس کے ہاتھ باقاعدہ کانپنے لگے تھے۔وہ ہڑبڑا گیا تھا۔کوئی ورق اِدھر اُدھرہو گیا تھا۔پانی پینے کے لیے اس نے افسانہ جب میز پر رکھاتھا تو ضرور اوراق کی ترتیب بدل گئی ہوگی۔ وہ اضطراب کے عالم میں ورق الٹ پلٹ کرنے لگا۔پہلی قطار میں بیٹھے خشخشی داڑھی والے نے اسے حوصلہ دیا:
’’کوئی بات نہیں۔ایسا ہوجاتا ہے۔ ہوجاتا ہے ایسا۔ پہلی بار ہے نا!۔‘‘
’’اِن سے بہتر کون جانتا ہے یہ۔ ان کے ساتھ تو اکثر ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔ فربہ شخص نے کتاب سے نظریں ہٹائے بغیر جملہ کسا تھا۔
’’ آپ خاموش ہی رہیں تو بہتر ہے ۔ نیچے چائے کے میز پر ہونے والی سُبکی کا بدلہ یہاں چکانے کی کوشش نہ کریں۔باہر کا معاملہ باہر ہی رکھیں تو اچھا رہے گا‘‘ خشخشی داڑھی والے نے گردن پیچھے موڑ کرچبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
’’شش، شش۔۔۔‘‘ بر وقت صدارتی شش نے ان دونوں کو خاموش کرا دیا۔
’’ ہاں، لیجئے، مل گیا صفحہ۔ یہ رہا‘‘ نوآموز افسانہ نگار اب کچھ پر امید دکھائی دے رہا تھا۔’’ہاں تویہاں تھے ہم۔ بڑے سرکار کہہ رہے تھے ۔۔۔ ’سمجھ آئی نا بات! یاد رکھنا اسے اب۔۔۔ان کے خاموش ہونے پر صاحب زادہ گویا ہوا:
’ بابا جانی کل تو کمال ہوگیا، آپ کو پہلے بتانہیں سکا  کہ عصر کی نمازپڑھنے کل جب میں مسجد گیا اور ابھی وضو کر کے فارغ ہی ہواتھا کہ صحن میں ایک بڈھے کو اونچا اونچا بولتے سنا۔میں جلد ی سے ادھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اِک دھان پان بڈھا دو جوان لڑکوں کو روکے کھڑا ہے اور ان سے کہہ رہا ہے: اوئے منڈیو! جے مارنا اے تے مینوں مار لو۔ ایہناں معصوم نمازیاں دی جان بخش دیو۔میں اپنی زندگی چنگی جی چکیاں تے مسیت اچ مرکے اخیر وی سنور جائے گی۔‘ نوجوان چپ اورحیران کھڑے تھے۔ بڈھے کو ان بے چاروں کے حلیے سے دھوکا ہوا تھا اور وہ انھیں دہشت گرد سمجھ بیٹھا تھا جب کہ وہ تو پردیسی تھے اور نماز پڑھنے اور دربار پر سلام کرنے آئے تھے بے چارے۔ میں نے بڈھے کو سمجھایا تو وہ چپ ہوا اور وہ نوجوان مسکراکر چلے گئے۔ بابا جانی، وہ واقعی دہشت گرد بھی تو ہو سکتے تھے۔ اس بڈھے کو ذرا خوف نہیں محسوس ہوا ان سے۔ بڑا نڈر تھا۔‘
’بیٹا جی، یہی میں ابھی انھیں بتا رہاتھا اور تم ایک روشن مثال لے کر سامنے آگئے۔ سبحان اللہ۔ سنا آپ سب نے، سنا ! یہ تقوے کی باتیں ہیں۔ یہ اللہ کے ڈر کی طاقت ہے جس کے سامنے ساری قوتیں کمزور ہیں۔یہ تو سامنے کا واقعہ ہے نا۔ابھی کل کا ۔ایسے واقعات ڈھونڈنے کے لیے تاریخ کی کتابوں کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں۔ بس اپنے دل کی آنکھیں کھلی رکھو پھر سب دکھائی دے گا۔جو دل کی آنکھ دیکھتی اور دکھاتی ہے وہ یہ ظاہر کی آنکھ کو کہاں نصیب! جس کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے وہ سلوک کا راہی ہوجاتا ہے اور ولایت کی منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔پہنچنا تو نصیب ہی سے ہوتا ہے پر ادھر کا تو راستہ ہی مل جائے تو بہت ہے ۔اور رستہ کو ن سا آسان ہے! بڑے خطروں کا رستہ ہے۔منزل سچی محبت والوں کو ملتی ہے اور محبت ڈرنے والوں کو ، جو اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے کسی قدم سے سوہنا محبوب ناراض نہ جائے۔ بس اللہ اللہ کیا کرو۔ توبہ استغفار کیا کرو۔یہی تقویٰ ہے، یہی ایمان ہے۔۔۔ اور کیا ہے! میں کہتا ہوں یہ جوہمارے شہر میں بم دھماکے کرتے پھرتے ہیں۔ پچھلے جمعے بیری والی مسجد میں بے گناہ نمازیوں کی جانیں لے لیں اور اتوار کو ادھر امام باڑے میں فائرنگ کرکے ظالموں نے۔۔۔کیا کہوں اب! کچھ خدا کا خوف نہیں ان بد بختوں کو۔ کون ہیں یہ لوگ؟ ایمان والے تو نہیں ہو سکتے۔ انسان کو کوئی ڈر ہوتا ہے، ان کو تو نہ قانون کا خوف ہے نہ رب کا۔۔۔ ‘ اتنے میں جمعے کی پہلی اذان بلند ہوئی۔اللہ اکبر، اللہ اکبر۔۔۔ بڑے سرکار خاموش ہوگئے۔ اذان مکمل ہوئی ۔ انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا ئے تو مریدوں نے بھی ان کے ساتھ ہاتھ اٹھا دیے۔‘

تیسری قطار میں بیٹھا ایک شخص اچانک ہی اٹھا تھا اور قینچی چپل گھسیٹتا اور بڑبڑاتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا تھا:
’ اک قہر دی گرمی، اُتوں سِگٹاں دا دھواں۔ یار، بھانڈے چہ وڑے ایہو جیہا ادب۔‘
نوآموز افسانہ نگارکی نظر بے اختیار ہی اس کی جانب اٹھ گئی تھی۔ کچھ حاضرین تو اسے باقاعدہ گھور رہے تھے۔اب اس نے حاضرین کوکچھ اور غور سے دیکھا۔شاید وہ لاشعوری طور پرافسانے میں ان کی دل چسپی بھانپنا چاہتا تھا۔لیکن کچھ بھانپ نہ سکا۔گہری سانولی عورت ابھی تک اکتائی بیٹھی تھی۔ اس کے چتکبرے تھیلے کے ساتھ بیٹھے دونوں مرد مسکرا رہے تھے۔ فربہ شخص کی آنکھین کتاب پر ٹکی تھیں۔سیکرٹری اپنی توندلٹکائے چندہ اکٹھا کرنے میں مصروف تھا۔اتنے میں ایک عمر رسیدہ عورت سیڑھیاں چڑھتی اوپر کمرے میں داخل ہوئی۔خالی نشست کی تلاش میں نظریں اِدھر اُدھرد وڑاتے ہوئے اور اپنے گھٹنے سہلاتی ہوئی بولی:
’’ دُرفٹے منہ۔ چار سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے اب۔ حد ہو گئی۔‘‘ پھر وہ گہری سانولی عورت کے ساتھ جا بیٹھی اور اس کے تھیلے کو کھسکا کر اپنے اور مرد کے درمیان چتکبری سی صنفی سرحد قائم کر لی۔ پھراس نے ایک مسکان کے ساتھ نوآموز افسانہ نگار کی طرف دیکھا اور بولی:’’ آپ شروع رہیے۔ یہ سب تو چلتا ہی رہے گا۔ کیا سنا رہے ہیں میاں آپ؟ نظم ، غزل کہ افسانہ؟ ۔۔۔بھائی سیکرٹری! دولت ہی سمیٹتے رہیں گے کہ آج کے پروگرام کی ایک کاپی بھی مہیا کردیں گے، الیکشن کے وعدے اب کون یاد دلائے انھیں! سینئر اراکین کو کون پوچھتا ہے بھائی!‘‘
’’ شکر کریں یہاں الیکشن تو ہوتے ہیں ہمارے ملک میں تو۔۔۔‘‘ گہری سانولی عورت خودکلامی کے انداز میں کہہ رہی تھی۔
’’ دے رہا ہوں جی کاپی، ایک منٹ۔‘‘ سیکرٹری نے اس کی بات کو قطع کردیا اور اجلاس کے پروگرام کی کاپی لینے کے لیے فربہ شخص کی طرف بڑھا ۔ سیکرٹری کا ارادہ بھانپ کر فربہ شخص نے اپنی کتاب فوراً بند کر لی جس میں اس نے پروگرام والا کاغذ اُڑس رکھا تھا۔ سیکرٹری اسے گھورتا ہوا دوسری قطار میں چلا گیا اوراس نے دھاری دار کھلا پاجامہ اورہلکی سبز شرٹ پہنے ایک منحنی سے شخص کے ہاتھ سے یک دم کچھ یوں کاغذ اُچک لیا کہ وہ غریب ہڑبڑا سا گیا۔ غالباً اونگھ گیا تھا۔عمر رسیدہ عورت کو کاغذ تھما کر سیکرٹری بائیں طرف سیڑھیوں کے بالکل پاس کمرے کی پہلی یا آخری کرسی پر جا بیٹھا اور ڈبے میں سے پیسے نکال کر گننے لگا۔
’’ ارے آپ اپنا کام جاری رکھیے، رُک کیوں گئے برخوردار!‘‘ عمر رسیدہ عورت نے پروگرام والے کاغذکو دوہرا کر کے پنکھے کی طرح اپنے چہرے کے سامنے دائیں بائیں ہلاتے ہوئے نوآموز افسانہ نگار سے کہا۔ اور اس نے بھی اس بار عجب میکانکی سے انداز میں آگے پڑھنا شروع کردیا:
’’ہاں۔۔۔ تو مریدوں نے بھی ان کے ساتھ ہاتھ اٹھا دیئے۔پھر سب باری باری بڑے سرکار اور صاحب زادے کے ہاتھوں کو بوسے دیتے ہوئے اُلٹے پاؤں کمرے سے نکلتے گئے تاکہ جمعہ کے لیے مسجد پہنچ سکیں۔۔۔بروقت مسجد پہنچ سکیں۔صرف فیقا نائی پیچھے رہ گیا۔
’ کیوں بھئی، تو نہیں جائے گا؟‘ صاحب زادے نے اس سے پوچھا۔
’ جی جانا تو ہے بس اک بات جلدی سے پچھنا چاہتا تھا اگر ازازت ہو تو‘۔ فیقے نے نظریں جھکائے جھکائے کہا ۔
’ ہاں، پوچھ‘۔ بڑے سرکار بھی اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ فیقا بولا:
’ سرکار یہ نصرت فتح بھی ولی ہے کیا؟‘‘۔
’ کون نصرت فتح؟ وہ قوال نصرت فتح علی خان؟ ‘‘ صاحب زادے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’ اوئے وہ فتح علی کا بیٹا۔ ان کی ٹولی کتنے سال آتی رہی ہے لائل پور سے ہمارے ادھر عرس پہ۔ اب بھی ایک سدّا بھیجوں تو بھاگا چلا آئے وہ۔ اس کا کیا ہے؟‘ بڑے سرکار نے اپنی چیک دار واسکٹ کی بیرونی جیبیں ٹٹولتے ہوئے کہا۔
’باباجانی یہ پوچھ رہاہے کیا وہ قوال بھی ولی ہے؟‘ صاحب زادے نے پھر مسکراتے ہوئے کہا۔
’تجھے کس نے کہہ دیا یہ؟‘ بڑے سرکار نے جو اَب واسکٹ کی اندر والی جیبوں میں کچھ ٹٹول رہے تھے استفسار کیا۔ فیقا بولا:
’ وہ کل ٹیشن پہ دو باؤ اخبار پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہ ساری دنیا میں اللہ اللہ اور علی علی کرواتا پھر رہا ہے۔اس کی آواز کے ساتھ آواز ملا کر سب’میری توبہ توبہ‘ بھی پڑھتے ہیں۔‘
’ اوئے ، پڑھتے نہیں گاتے ہیں، جھلیا، گاتے ہیں۔ پڑھنے اور گانے میں فرق بھی اب مجھے سمجھانا پڑے گا تجھے؟پاپ سنگر بن گیا ہے وہ اب۔ پاپ کوئی اچھی شے ہے۔ تو آپ بتا مجھے۔ تجھ سے زیادہ تو مجھے وہ اپنا ممدا موچی سمجھدار لگتا ہے ۔ اس بے وقوف نے بھی ایسی نامعقول بات کبھی نہیں پوچھی۔اوئے ولایت کی منزلیں یونہی مل جاتیں تو پاؤں میں گھنگھرو باندھ کے کون ناچتا؟مرشد کے حکم پر سات سمندر پار کون راوی کے کنڈے آ ڈیرہ لگاتا، چلّے کاٹتا سب کو چھوڑ چھاڑ کے۔ چھڈ جھلیا یہ اور باتیں ہیں۔ اب جا کل آکے بنا دینا میرا خط۔ اس وقت طبیعت نہیں چاہ رہی۔کتنی بے ترتیب سی ہو گئی ہے داڑھی۔‘ بڑے سرکار نے داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔
ہاتھ کو بوسہ دے کر اور سلام کرکے فیقا رخصت ہوا تو صاحب زادہ بھی جلدی سے دروازے کی طرف بڑھا۔
’ کدھر بیٹا جی؟‘ بڑے سرکار نے اسے پوچھا۔
’جمعے کے لیے بابا جانی، خطبے سے پہلے پہلے پہنچنا ہے نا مسجد۔ نہیں تو فرشتے بھی دروازے سے اٹھ کر اندر چلے جائیں گے۔ نام کیسے درج ہو گا میرا نمازیوں میں۔ غیر حاضری لگ جائے گی۔ مولوی صاب کہہ رہے تھے کہ۔۔۔‘
’ ہاں، ہاں وہ ٹھیک ہے سب، پر آج کل حالات کچھ اور ہیں، ان میں احتیاط ضروری ہے۔ تو میرا کلّا کلّا پتّر ہے۔آج اِدھر بم، کل اُدھر فائرنگ۔ کوئی حال ہے یہ باہرجانے کا۔ میں نے تیری ماں سے کہہ دیا ہے۔ اندر جا اس سے جانماز لے اور چپ کر کے’ظہر بدل‘ پڑھ لے۔ شریعت میں ساری گنجائشیں موجود ہیں بیٹا جی۔‘
’ پر بابا جانی، ایسا بھی کیا ہے سبھی تو۔۔۔‘ صاحب زادہ بچوں کی طرح منہ بسورنے لگا۔
’ چل بیٹا، بات مانتے ہیں بڑوں کی۔ ضد نہیں کرتے۔ مجھے حالات سے ڈر لگتا ہے۔‘روشن دان سے لپکتی دھوپ کی ترچھی لکیر میں اگر بتی کا خوشبودار دھواں رقاص درویشوں کی طرح چکر کھا رہا تھا۔
’ پر، بابا جانی، ڈرنا تو رب سے چاہیے نا۔۔۔آپ ہی تو فرما رہے تھے ابھی۔‘
’ ہاں، ہاں۔ رب سے ڈر اور باپ کی بات مان۔ رب کی دی ہوئی حیاتی کی قدر کر۔ جا اندر چپ کرکے نماز پڑھ لے میراچن۔تیری ماں بھی فکر کررہی ہے۔‘
ہرطرف خاموشی چھانے لگی تھی۔
بڑے کمرے میں اب کوئی اور نہ تھا۔ بس ایک سہما ہوا ہیولہ سا تھا یا پھر اس کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہوا ایک ڈر۔۔۔ختم شد‘‘۔

یہ کہہ کرنوآموز افسانہ نگار نے فاتحانہ انداز میں اپنے بائیں جانب دیکھا۔ اُدھر کچھ نہ بدلا تھا۔ جائنٹ سیکرٹری گلابی جلد والے رجسٹر پر گردن جھکائے راز و نیاز میں مشغول تھا۔ صدرِ اجلاس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔انگلیوں میں سگریٹ روشن تھا۔ دایاں پاؤں بدستور حرکت کررہا تھا۔بس اس کی شرٹ کی جیب پرنقش نیلا دھبہ پہلے سے کچھ اوربڑا ہو گیاتھا۔۔۔ فضا میں دھوئیں کے مرغولے رقصاں تھے ۔نو آموز افسانہ نگار نے اپنی نگاہیں اُدھر سے ہٹاتے ہوئے سُکھ کاایک لمبا سانس لیا۔حواس پر جمی برف پگھل رہی تھی۔اس نے جیب میں سے نیلا رومال نکال کر چہرے پر پھیرا۔ پہلے افسانے کو لپیٹا اور پھر چرمڑے رومال کو احتیاط سے تہہ لگانے لگا۔
’’ افسانہ آپ نے سُنا۔۔۔تو حضرات! صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے‘‘۔ صدرِ اجلاس نے آہستہ سے حاضرین کو دعوتِ گفتگو دی۔ دعوتی جملہ ختم ہونے کی دیر تھی کہ فربہ شخص کتاب سے نظر ہٹا کربولنا شروع ہوگیا:
’’ صاحبِ صدر، آپ جانتے ہی ہیں ایک اچھا افسانہ پریزنٹ سے ٹریول کرتا ہوا یا تو ہمیں پاسٹ کے ویسٹ لینڈمیں لے جاتا ہے یا پھر فیوچر کے لینڈاسکیپ کی سیر کرواتا ہے۔ جیسا کہ آرتھر کوئسلر کا کہنا ہے کہ دی پرنسپل مارک آف اے جینئس از ناٹ پرفیکشن بٹ اورجنیلیٹی۔ دی اوپننگ آف نیو فرنٹئرز۔ تو ا س افسانے میں اوریجنل تو کچھ ہے نہیں۔ آج کل جوکچھ اخباروں میں چھپ رہا ہے وہی کچھ اس تحریر میں جسے افسانہ کہہ کر پیش کیا گیا ہے، اس میں بیان کردیا گیا ہے اور کیا ہے۔ ہاں ذرا سا ریلیجس انسٹی ٹیوشن میرا مطلب ہے سماج کے مذہبی ادارے کو چھیڑا گیا ہے بس، سیٹائر۔۔۔طنز کہہ لیجیے!‘‘
’’صاحبِ صدر، میرے خیال میں۔۔۔‘‘پہلی قطار میں بیٹھے خشخشی داڑھی والے نے کہنا شروع کیا مگر پچھلی قطار سے منحنی شخص بیچ میں کُو د پڑا:
’’صاحبِ صدر، ایک بات جو مجھے بُری طرح کھٹکی اس افسانے میں یا جیسا کہ ابھی کہا گیا اِس تحریر میں وہ یہ ہے کہ اس میں موومنٹ تو ہے ہی نہیں۔ نہ کردار آگے بڑھتے ہیں نہ کہانی۔حرکت کے بغیر، صاحبِ صدر، نہ انسان زندہ رہ سکتا ہے اور نہ تحریر۔آپ حرکیات کے نظریہ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ قوت اور حرکت کی پیداوار ہے۔۔۔میں تو یہ کہوں گا کہ۔۔۔‘‘ منحنی شخص ابھی کچھ اور کہنا چاہتا تھا مگر
’’یہ حرکت کی پیداوار خوب ہے۔ صاحبِ صدر۔‘‘ صوفے پر بیٹھے دو مروںمیں سے ایک نے صدرِ اجلاس کی طرف دیکھتے ہوئے اور مسکرا کر ساتھ والے کو ٹہوکہ دیتے ہوئے کہا۔وہ بھی کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دھیما سا ہنس دیا۔خشخشی داڑھی والے کو کودنے کا موقع مل گیا:
’’صاحبِ صدر،جلد بازی اور نتائج پر فوری کُود جاناہماری ایک ایسی انفرادی عادت ہے جو اب ہمارا اجتماعی بلکہ قومی معمول بنتی جارہی ہے۔ہم ایک ہی زقند میں نشانِ تکمیل پر پہنچ جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں نہیں بلکہ محض خیال میں۔ حقیقت میں تو ہم بیچ ہی میں کہیں معلق ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنا دایاں ہاتھ ڈھیلا سا کر کے گھنٹی کی طرح ہِلاتے ہوئے کہا۔
’’ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ان سب باتوں کا ایمان اور دہشت گردی وغیرہ پرلکھے اس سیدھے سے افسانے سے کیا تعلق ہے؟آج جہاں ادب پوسٹ ماڈرنزم کے عہد میں داخل ہو چکا ہے ایسے افسانوں کی کیا گنجائش ہے بھلا۔ ہاں کچھ ترقی پسندی ضرور جھلکتی ہے اس میں‘‘ ۔گہری سانولی عورت نے سپاٹ سے لہجے میں کہا۔
’’ترقی پسندی؟ کیسی ترقی پسندی، محترمہ؟‘‘
’’ وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔جیسا کہ منٹو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مولوی اور پیر کو۔۔۔‘‘
’’ لیکن سوال تو یہ ہے کہ منٹوکب سے ترقی پسند ہوگیا۔ان سے چڑ تھی اُسے۔ اسی لیے تو اس نے اپنی کتاب کا دیباچہ محمد حسن عسکری جیسے رجعت پسند نقاد سے لکھوایا تھا، محض ترقی پسندوں کو زچ کرنے کے لیے۔ اور کیا !‘‘
’’ مولوی کے بارے میں منٹو کے خیالات سے قطعِ نظر اس افسانے کا موضوع بہر صورت قول و فعل کا تضاد ہے، یہ بات ماننا پڑے گی آپ کو۔ یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گاکہ۔‘‘ خشخشی داڑھی والا پرجوش ہوگیا تھا۔’’ کہ اب تک جو گفتگو ہوئی ہے کیا اس کے دوران میں یہی رجحان دیکھنے میں نہیں آیا کہ ہمارے کچھ دوست فوری فیصلے صادر کرنے کے در پے ہیں۔۔۔اس افسانے کے حوالے سے۔۔۔‘‘
’’سرسری فوجی عدالتوں کا دور ہے جنابِ والا۔ فوری فیصلوں سے کیسے بچیے گا؟ لارنس گارڈن کاجنگلہ بھی مجھے اب جیل کی سلاخیں محسوس ہوتا ہے۔‘‘ سیڑھیوں کے پاس بیٹھے سیکرٹری نے چندے کا ڈبہ بند کرکے ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔اس پر صدرِ اجلاس فوراً بولا:
’’ میں تو کہوں گا کہ ان دنوں ہمیں ایسی گفتگو سے گریز ہی کرنا چاہیے۔کوئی بھی، کہیں بھی، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سمجھ رہے ہیں نا؟ ‘‘
’’آپ سیکرٹری صاحب کو ڈرا رہے ہیں کیا؟ وہ نہیں ڈرتے کسی سے۔‘‘ فربہ شخص نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ڈرتے نہیں ہیں تو یوں بالکل سیڑھیوں کے پاس کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘
’’ظاہر ہے جلدی سے بھاگ لینے کے لیے اور کس لیے!‘‘
اور ایک قہقہہ بلند ہوا جس میں سب سے زیادہ زورتو سیکرٹری کے اپنے پھیپھڑوں کا تھا۔ذرا خاموشی ہوئی تو وہ صدر سے مخاطب ہو کر مسکراتے ہوئے بولا:
’’ آپ کہتے ہیں تو خاموش ہوئے جاتے ہیں۔‘‘
’’ نہیں، نہیں، آپ بولیے ۔۔۔فیض صاحب نے بھی تو کہا ہے: بول کہ لب آزا د ہیں تیرے۔‘‘ صدرِ اجلاس نے کہا۔
’’شکر ہے آپ ایک جمہوریت پسند صدر ہیں جو بات کرنے اجازت دے رہے ہیں ورنہ ملک میں جب سے مارشل لا نے صدارتی شیروانی پہنی ہے دھڑکا ہی لگا رہتا ہے۔ جانے کب کون سا صدارتی حکم صادر ہو جائے۔سب اختیارات صدر کے پاس جو ہوئے۔‘‘ عمر رسیدہ عورت بولی تھی۔
’’اور یہ جو فیض صاحب کا مصرع آپ نے پڑھا ہے تو اس میں بھی انہوں نے لب ہی آزاد ہونے کی بات کی ہے۔ ذہن آزاد ہونے کی نہیں‘‘۔خشخشی داڑھی والا کہنے لگا۔’’اصل آزادی تو سوچ اور ذہن کی ہوتی ہے۔ لب کی آزادی کیا صاحب اوربندش کیا!‘‘
’’ آزادی جیسی اور جتنی بھی ہو غنیمت ہے۔کتنے برس ہو گئے مسلسل گھٹن میں۔ کہیں سے تو کوئی تازہ ہوا کا جھونکا آئے ۔ فہمیدہ ریاض انڈیا چلی گئیں، فراز صاحب لندن۔یہاں رہ کیا گیا ہے اب سوائے باسی حبس کے!‘‘ گہری سانولی عورت بولی تھی۔جس پر منحنی شخص نے پیچھے مُڑ کر کمرے کی واحد کھڑکی کی طرف دیکھ کر کہا :
’’ کھڑکی تو پوری کھلی ہے۔لگتا ہے فی الحال اسی باسی حبس ہی سے کام چلانا پڑے گا۔‘‘ اور خود ہی ہنس دیا۔’’ میرا خیال ہے اجلاس میں تمباکو نوشی پر پابندی لگا کر دیکھتے ہیں شاید فضا کی گھٹن کچھ کم ہو۔‘‘
’’ گھٹن کم ہو نہ ہو شرکا کی تعدادضرور کم ہو جائے گی۔۔۔بشمول صدرِ اجلاس۔‘‘ پچھلی قطار میں سے کسی نے فوراً تبصرہ پھینکا۔
ایک اور قہقہہ ۔ اور صدرِ اجلاس، جس کی شرٹ کی جیب پرنقش نیلا دھبہ کچھ اور بھی بڑا ہو گیاتھا، بولا: ’’ حضراتِ گرامی، اوہ معاف کیجئے گا خواتِین و حضراتِ گرامی میرا خیال ہے کہ۔۔۔۔‘‘
’’ جنابِ صدر، یہاں تو صرف دو عورتِیں ہیں تو خواتِین کیسے ہو سکتی ہیں۔ خواتِین تو صیغۂ جمع ہے دو کے لیے تو آپ کو ۔۔۔‘‘ عمر رسیدہ عورت نے مسکراتے ہوئے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
’’ تو چلئے، خواتَین و حضرات ‘‘ وہ بھی مسکرا کر بولا ’’ ہمیں واپس اس افسانے کی طرف آنا چاہیے ابھی اور تخلیقات بھی پیش ہونا ہیں‘‘۔
’’ جی درست کہا آپ نے۔‘‘ فربہ شخص فوراً بولا۔’’ افسانے کے حوالے سے میں پہلے بھی یہی کہنا چاہ رہا تھا کہ بظاہر بات افسانے میں آج کے حالات کی ہوئی ہے ، موجودہ صورتِ حال کا حوالہ ضرورہے اس میں مگر وہ ماڈرن سینسبیلیٹی لَیک کرتی ہے، فقدان ہے اس کا جو ماڈرن لٹریچر کو اولڈ سے ڈسٹنگواِش کرتی ہے۔ بگننگ سے اینڈ تک کلیشے ہے ہر طرح سے۔ہاں، شارٹ سٹوری کا ٹائٹل تھورا تھورا جسٹی فائی ہوتا ہے۔۔۔‘‘
خشخشی داڑھی والا گویا اپنی نشست میں تڑپ کر رہ گیا: ’’صاحبِ صدر، ہمارے ہاں بعض لوگ نیا نیا ایم اے انگریزی کر کے خواہ مخواہ دھونس جمانے آجاتے ہیں حالانکہ بات بآسانی اردو میں بھی ہو سکتی ہے۔ آپ جانتے ہیں اردو دنیا کی ۔۔۔۔‘‘
فربہ شخص کو یہ جملہ براہِ راست حملہ محسوس ہوا۔وہ فوراً لپکا: ’’ جنابِ صدر، آپ کی وساطت سے میں اپنے فاضل دوست کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک تو ایم اے انگلش میں نے نیا نیا نہیں کیا ۔دوسرے یہ کہ میں تو ماڈرن سینسبیلیٹی کی بات کررہا تھا لٹریچر میں ۔۔۔تو یہ کوئی اتنی مشکل بات تو نہیں کہ کسی کو سمجھ نہ آئے۔ میں کو ن ساچاؤسرؔ    کی کینٹر بری ٹیلز یا کافکاؔ کے دا کیسل ، جیمس ؔجوائس کے یُولی سِز یا پھر۔۔۔ یا پھرملٹنؔ    کی پیراڈائز لوسٹ کی بات کررہا تھا کہ۔۔۔۔خیر یہاں کس نے پوری پڑھی ہوگی پیرڈائز لوسٹ بھی جو میں بے کار اس کا حوالہ دے رہا ہوں‘‘۔
’’ بالکل پڑھی ہے صاحب۔۔۔ اور پوری پڑھی ہے۔‘‘ خشخشی داڑھی والا بولا۔
’’ میں نے ایک بار نہیں ،تین تین بار پڑھی ہے۔۔۔اور آپ نے؟‘‘
’’صرف ایک بار۔۔۔پہلی بار پڑھنے پر ہی سمجھ آگئی تھی مجھے تو۔۔۔‘‘
قہقہہ دھوئیں کے بھنور تخلیق کرتے مرغولوں کے پار تک گیا تھا۔
قہقہہ کی گرد بیٹھی تو منحنی شخص نے کہنا شروع کیا:
’’صاحب، صدر، میری ناقص فہم کے مطابق تو یہ افسانہ کچھ ایسا۔۔۔۔‘‘
’’ صاحبِ صدر، جو شخص خود اعتراف کررہا ہے کہ اس کی عقل و فہم ناقص ہے اس کی رائے کو کیا وقعت دی جائے بھلا۔۔۔!‘‘ فربہ شخص نے اپنے تئیں بڑی چوٹ کی تھی۔مگر منحنی شخص اس پر جھٹ بول اٹھا:
’’صاحبِ صدر، میں بصد معذرت اپنی گذشتہ رائے واپس لیتا ہوں اور اب کہتا ہوں کہ میری اعلیٰ و ارفع عقل اور میری فہمِ سلیم و حکیم کے مطابق یہ افسانہ کچھ ایسا گیا گزرا بھی نہیں کہ۔۔۔۔‘‘
مکمل جملہ سوائے جائنٹ سیکرٹری کے شاید کسی نے بھی نہیں سنا تھاکہ وہ سب تو اس دل چسپ مکالمے کا لطف لے رہے تھے اور باہم کھسر پھسر میں مصروف تھے۔نوآموز افسانہ نگار پر ’’ینگ رائٹرز‘‘ کے ان سبھی نوجوان ناقدین کی بظاہر مرعوب کُن گفتگو کا تانابانا ادھڑتا جا رہا تھا جو ان سینئر ناقدین میں سے کسی نہ کسی کی نقالی کرکے بھرم بنائے ہوئے تھے۔ شاید اسی لیے وہ نوآموز افسانہ نگار کو ’’اربابِ سخن‘‘ سے گریز کا مشورہ دیتے تھے۔
ابھی وہ کچھ اور بھی سوچتا مگر صدرِ اجلاس کی آواز اس کے تجزیاتی تخیل میں مخل ہوگئی تھی:
’’ویسے تو میں سو فی صد جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کی پاس داری کرنے والا شخص ہوں لیکن آپ مجھے بھی کوئی صدارتی آرڈی نینس جاری کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘
’’ اب آپ صدارتی رائے دے ہی ڈالیں تاکہ افسانے پر گفتگو ختم ہو۔ بہت وقت ہو چلا ہے‘‘ جائنٹ سیکرٹری نے مشورہ دیا تھا۔
’’ہاں یہی ٹھیک رہے گا۔ میرے خیال میں یہ ایک نئے افسانہ نگار کی اچھی ابتدائی کوشش ہے۔ مگر مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔معیاری افسانے کے تقاضوں اور لوازم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ افسانہ ’’سلائس آف لائف‘‘ ہوتا ہے اور پوری داستان نہیں سناتا بس ایک جھلک سی دکھاتا ہے زندگی کی اور باقی سب کچھ قاری کے متخیلہ اور حسیّات پر چھوڑدیتا ہے کہ وہ کیا نتائج اخذ کرتا ہے یا کہانی کو آگے کیسے بڑھاتا ہے اپنے تئیں۔ دوسری بات یہ کہ اس میں کہانی پن کا ہونا ضروری ہے ورنہ قاری بھٹک جائے گا اوراپنی دل چسپی کھو دے گا، نتیجتاً کہانی ناکام ہو جائے گی۔ اسی کہانی کو منٹو، عصمت یا ہمارے مرزا حامد بیگ بھی لکھتے تو کسی اور ڈھنگ سے، کسی اور اسلوب میں لکھتے۔میرا خیال ہے۔ تاہم ابھی تو اس راستے پر نئے مسافر ہیں یہ۔ چلتے جائیں گے تو اور بھی راہیں ملتی جائیں گی۔ یہ بہت صبر آزما اور طویل سفر ہے جسے آپ لکھنا لکھانا کہتے ہیں نا۔ کچھ آسان نہیں۔ بہرحال میں تو ہمیشہ نوواردانِ ادب کو پڑھ کر، سن کر خوش ہوتا ہوں۔ جیسا کہ احمد مشتاق نے کہا ہے نا:

 نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے

ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں

سو، خوش آمدید جناب ’اربابِ سخن‘ میں۔۔۔ اور اب آج کے اجلاس کی اگلی تخلیق یعنی نظم ۔ پیش کریں گے ہمارے شاعر۔۔۔۔‘‘
نوآموز افسانہ نگار شاعر کے لیے سامنے کی نشست خالی کرکے کمرے کے آخری کونے میں کھڑکی کے پاس چلا گیا تھا جہاں اسے ایک خالی کرسی دکھائی دی تھی۔ وہ دیوار کی ساتھ لگی کھڑی اس کرسی کا جائزہ لینے لگا۔
ادھر ملگجی پی کیپ پہنے نحیف سے شاعرنے اپنی مختصر نظم پیش کردی تھی۔جائنٹ سیکریٹری سر جھکائے مسلسل لکھے جا رہا تھا اُس گلابی جلد والے رجسٹر میں۔ فربہ شخص نے کتاب سے نظر ہٹا لی تھی اوروہ نظم پر اپنی رائے دینے کوبے چین تھا۔ صدرِ اجلاس یارانِ نکتہ داں کو صلائے عام کی دعوت دے کر اپنی دونوں ٹانگوں سے ضرب کا نشان بنائے، صوفے سے ٹیک لگائے، کچھ کچھ آنکھیں موندے سگریٹ کا ایک لمبا سا کش کھینچتے ہوئے چھت کو گھور رہا تھا۔
نوآموز افسانہ نگار نے دیکھا اس کرسی کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔ چند لمحے وہیں کھڑا وہ اسے دیکھتا اورکچھ سوچتا رہا۔ پھر مُڑا اور آہستہ آہستہ سیڑھیوں کی طرف رینگنے لگا۔ اچانک اُسے لگا کہ وقت اس کے کرتے کی جیب میں پڑے میلے رومال کی طرح چرمڑا ہوتا جا رہا ہے۔ گہرا نیلا دھبہ آسمان کی صورت کافی ہاؤس کے بالائی کمرے کی چھت پر پھیلتا جارہاہے ۔ آسمانی چھت میں شگاف بناتے دھوئیں کے آوارہ مرغولے ۔۔۔ ان گنت بلیک ہولز، دم دم پھیلتے اور سکڑ تے بلیک ہولز۔
نوآموز افسانہ نگار سیڑھیاں اترتا چلا گیا ۔۔۔ جیسے جنگلی کبوترکو اُڑان کاراستہ مل گیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment